گمشدہ میراث | Gumshdha Miras
گمشدہ میراث | Gumshdha Miras
Regular price
Rs.300.00 PKR
Regular price
Rs.600.00 PKR
Sale price
Rs.300.00 PKR
Unit price
/
per
شمس الرحمٰن فاروقی |
گلزار ملک کے ناول’’گمشدہ میراث‘‘ کی معنویت کو سمجھنے کے لئے آپ کو پہلے ’سدھارتھ‘ اور بعدازاں ناول ’الکمیسٹ‘ میں نظریاتی تاروپود پر گہری نظر رکھنے کی ضرورت ہےورنہ آپ ’’گمشدہ میراث‘‘کے جہانِ معانی کو کھو دیں گے۔ سدھارتھ میں بدھا کے نظام فکر کو چھوتے ہوئے ہیرو ذات کے ایک ایسے انفرادی سفر کی بنیاد رکھتا ہے جس میں ہیرو نفسیاتی خواہشات کے زیر اثر حیوانیت کے زیریں ترین درجہ سے منازل طے کرتا ہوا اعلیٰ درجے تک پہنچتا ہے لیکن ایک دشوار گزار اور مشکل سفر کے بعد انجام کار زندگی کی بے ثباتی اور بے معنویت کے ہاتھوں ہار کر کھیتی باڑی کی جانب لوٹ جاتا ہے اور سبزیاں، پھل کی کاشت میں سکون پاتا ہے لیکن الکمیسٹکے ہیرو کا سفر اُنہیں روز مرہ کے کاموں کو ترک کر کے آگے بڑھتے ہوئے کسی نئے اور انفرادی جہانِ حیرت کی جستجو کا سفر ہے جو خواب، یقین اور انکڑے پھینکنے یا شگون تلاش کرنے کے درمیان ایک لکیر کھینچتا ہے جسے عصر حاضر کا جدید انسان سماجی سطح پر شک کی نگاہ سے دیکھتاہے گڈریا اپنی جمع پونجی کھو دینے کے بعد چائے کی دکان پر کام کرتے ہوئے بھی اپنے خوابوں کا پیچھا کرنا نہیں چھوڑتا اور صحرا کا جان جوکھم اور دشوار گزار سفر طے کر کے آخر کار اپنی منزل وہیں پاتا ہے جہاں سے اس نے اپنے سفر کا آغاز کیا تھا۔ یہ دونوں کردار اپنی ذات کی سطح پر تو نروان پاجاتے ہیں لیکن اس انفرادی تجربے میں دوسرے انسانوں کے اشتراک عمل سے محروم رہتے ہیں۔
اگرچہ ’’گمشدہ میراث ‘‘کے ہیرو نانگے لوہار کا سفر کھیتی باڑی کی طرف پلٹے ہیرو اور گڈریے کے سفر ہی کو آگے بڑھاتا ہے لیکن منزل پر پہنچ کر ہیرو اس انعام میں دوسرے انسانوں کی شراکت داری کر کے حیوانیت کے اعلیٰ درجہ سے بلند ہو کر انسانی معراج پر فائز ہو جاتا ہے۔ یہ وہ معنویت ہے جس پر اس ناول کی بنیاد استوار ہے اور جسے سمجھے بغیر نہ ہی اس ناول کی تفہیم ممکن ہے اور نہ ہی کسی زندہ سماج کی تشکیل نو۔
عصر حاضر کا ادب اور ’’گمشدہ میراث‘‘ کی سماجی معنویت