مسلم قتل عام 1947 | ڈاکٹر سعید احمد ملک |
مسلم قتل عام 1947 | ڈاکٹر سعید احمد ملک |
مسز پوجا کا مشورہ
ہندوستان میں پاکستان کے خلاف سب سے زیادہ فلمیں بنانے والے جیوتی پر کاش دتا کے ساتھ نئی دہلی کے ہوٹل میں گفتگو کے بعد یہ خاکسار کافی شاپ کے ایک کونے میں بیٹھا سوچ رہا تھا کہ جس ملک میں پاکستان کے خلاف فلمیں بنانے والے کو سونے میں تولا جائے ، اس ملک کے ساتھ پاکستان کی دوستی کیسے ممکن ہو گی؟ کافی کے دو کپ پی کر میں اٹھنے ہی والا تھا کہ ساڑھی میں ملبوس ایک معمر خاتون میرے ساتھ آ بیٹھی اور بڑی بے تکلفی سے پوچھا کہ کل رات نئی دہلی ٹیلی ویژن پر برکھا رُت کے پروگرام میں اجے ساہنی کے ساتھ تم ہی الجھ پڑے تھے ناں؟ میں نے اثبات میں جواب دیا تو خاتون نے کہا کہ پہلی بار ہم نے کسی انڈین ٹی وی چینل پر یہ سنا کہ کشمیریوں نے بندوق اس لئے اٹھائی کہ 1987 ء کے الیکشن ان سے چرا لئے گئے تھے۔ خاتون نے فورا ہی سوال کیا کہ کیا ہندوستان کے خلاف بندوق اٹھانے والے کشمیریوں کو تم بھی دہشت گرد سمجھتے ہو؟ تمہارے ملک میں بھی تو ہندوستان سے نفرت کرنے والوں کے خلاف کریک ڈاؤن ہو رہے ہیں ناں؟ میں نے جواب دینے کی بجائے خاتون سے پوچھا کہ آپ کون ہیں ؟ سوال سن کر وہ چند لمحے خاموش رہیں ۔ انہوں نے آس پاس دیکھا اور تسلی کی کہ کوئی دوسرا انہیں سن نہیں رہا اور پھر بولیں کہ میرے سفید بالوں سے تم اندازہ لگا سکتے ہو کہ میں ستر سال سے اوپر کی ہوں ۔ چھپن سال پہلے میں زرینہ تھی اور آج پوجا ہوں ، مسز پوجا چوہان میرا نام ہے ۔ اس سے پہلے کہ میں اگلا سوال کرتا انہوں ۔ نے بتایا کہ 1947 ء میں وہ جموں میں رہتی تھیں اور ان کا تعلق ایک مسلم گھرانے سے تھا۔ ایک دن ابا جی گھبرائے ہوئے گھر آئے اور ماں سے کہا کہ کل ہم سب کو لاری میں بیٹھ کر پاکستان جانا ہے اس لئے سامان باندھ لو ۔ ساری رات ہم نے سامان باندھا اور اگلی صبح جموں کے ایک بڑے میدان میں اکٹھے ہو گئے ۔ تھوڑی دیر بعد ہمیں لاریوں میں سوار کرایا گیا لیکن جیسے ہی یہ لاریاں شہر سے نکلیں حملہ ہو گیا ۔ مجھے صرف اتنا یاد ہے کہ میرے ابا کو ایک سکھ نے برچھی ماری ، ماموں نے بچانا چاہا تو ماموں کے سر پر کلہاڑا مارا گیا ۔ ماموں پر میری ماں گر گئیں تو ان کے سینے میں بھی برچھی اتر گئی ۔ میں نے اپنے تین سالہ بھائی کو گود میں اٹھا رکھا تھا۔ میں اسے اٹھا کر بھاگی تو دور جا کر گر گئی ۔ پھر مجھے ہوش اس وقت آیا جب میں ایک کیمپ میں پڑی تھی اور میرا سر پٹیوں میں لپٹا ہوا تھا ۔ ایک ڈوگرا فوجی مجھے اودھم پور لایا اور ایک ہندو تاجر کے پاس چار سو روپے میں فروخت کر دیا ، کچھ عرصہ میں نے اس کے گھر میں کام کیا پھر اس کی بیوی ایک دن مجھے دہلی لے آئی اور کہا کہ تمہارا بیاہ میرے بھائی سے ہونے والا ہے ۔ اس کے بھائی کے دو بچے تھے اور اس کی بھابی بیمار ہو کر مر چکی تھی ۔ پندرہ سال کی عمر میں مجھے دو بچوں کے باپ کے سپرد کر دیا گیا اور جس دن پنڈت نے ہمارے پھیرے لگوائے اس صبح مجھے کہا گیا کہ آج سے تم زرینہ نہیں بلکہ پوجا ہو ۔ پھر میں نے پو جا بن کر اپنے شوہر اور بچوں کی خدمت کی اور مجھ سے تین بچوں نے جنم لیا۔ تینوں ہندو ہیں ۔ خاتون نے بتایا کہ میں برس پہلے ان کے شوہر فوت ہو گئے ہیں ، بچوں کی شادیاں ہو چکیں اور اب وہ دہلی میں اپنی بیوہ بیٹی کے ساتھ رہتی ہے ،،،۔۔