قائد اعظم کے 72 سال | خواجہ رضی حیدر
قائد اعظم کے 72 سال | خواجہ رضی حیدر
Regular price
Rs.300.00 PKR
Regular price
Rs.800.00 PKR
Sale price
Rs.300.00 PKR
Unit price
/
per
قائداعظم کے خطاب کا تحقیقی جائزہ
از:۔ خواجہ رضی حیدر
گاندھی جی کی جانب سے محمد علی جناح کے لیے’’قائداعظم‘‘ کا خطاب استعمال کرنے کا سب سے زیادہ رنج مولانا ابوالکلام آزاد کو ہوا جس کا انہوں نے برسوں کے بعد اپنی کتاب ’’انڈیا ونز فریڈم‘‘ میں اظہار کیا۔
بحوالۂ تاریخ محمد علی جناح کے لیے سب سے پہلے یہ خطاب جمعیت علمائے ہند کے سیکریٹری مولانا احمد سعید دہلوی نے استعمال کیا تھا۔ محمد امین زبیری مارہروی نے اپنی کتاب ’’سیاستِ ملیہ‘‘ میں لکھا ہے کہ ’’7دسمبر 1936ء کو مراد آباد کی جامع مسجد میں مولانا احمد سعید دہلوی نے جناح کا تذکرہ کرتے ہوئے کہا تھا کہ آج مسلمانوں میں سیاست کو سمجھنے والا اس سے بہتر کوئی شخص نہیں، لہٰذا مسلمانوں کے ’’قائداعظم‘‘ ہونے کے وہ بجاطور پر مستحق ہیں‘‘۔ جب کہ ایک معروف مصنف اور تحریکِ پاکستان کے قلمی معاون جمیل الدین احمد نے اپنی انگریزی کتاب ’’گلمپ سز آف قائداعظم‘‘ میں خیال ظاہر کیا ہے کہ محمد علی جناح کے لیے یہ خطاب دہلی کے پندرہ روزہ اخبار ’’الامان‘‘ کے مدیر مولانا مظہر الدین شیرکوٹی نے تجویز کیا تھا۔ مشہور صحافی اور شاعر عبدالمجید سالک نے اپنی کتاب ’’سرگزشت‘‘ میں خیال ظاہر کیا ہے کہ لاہور سے تعلق رکھنے والے تحریکِ خلافت کے ایک پُرانے کارکن میاں فیروز الدین نے لیگ کے جلسوں میں ’’قائداعظم زندہ باد‘‘ کے نعرے لگاکر اس خطاب کو مقبول بنایا۔ پروفیسر شریف المجاہد نے قائداعظم کے پرائیویٹ سیکریٹری مطلوب الحسن سید کے حوالے سے اپنی کتاب ’’قائداعظم جناح اسٹیڈیز اِن انٹرپریٹیشن‘‘ میں لکھا ہے کہ آل انڈیا مسلم لیگ کے سالانہ اجلاس لکھنؤ منعقدہ اکتوبر 1937ء میں مولانا ظفر علی خان نے محمد علی جناح کو قائداعظم کے خطاب سے مخاطب کیا۔ مولانا ظفر علی خان کے الفاظ تھے ’’ہمارے قائد محمد علی جناح، بلکہ میں تو یہ کہوں گا کہ ہمارے قائداعظم محمد علی جناح۔۔۔‘‘ دسمبر 1937ء کے اواخر میں محمد علی جناح آل انڈیا مسلم لیگ کے تنظیمی دورے پر بہارگئے تو اُس موقع پر کلکتہ کے اخبار ’’عصرِ جدید‘‘ نے اپنی 3جنوری 1938ء کی اشاعت میں ایک خبر کی سرخی میں لکھا: ’’گیا میں مسلمانانِ ہند کا قائد اعظم‘‘۔ اپریل 1938ء میں پنجاب کے وزیراعلیٰ سرسکندر حیات خان نے کلکتہ میں اپنی ایک تقریر کے دوران جناح کے لیے قائداعظم کا خطاب باربار استعمال کیا۔ غرض کہ 1938ء کے آغاز پر ہی محمد علی جناح کے لیے قائداعظم کا خطاب اس قدر عام ہوگیا تھا کہ تمام مسلم پریس اور رہنما جناح کو ’’قائداعظم‘‘ کے خطاب سے ہی مخاطب کرنے لگے تھے۔
یہاں یہ امر قابلِ ذکر ہے کہ 22دسمبر 1939ء کو مسلمانانِ ہند نے کانگریسی حکومت کے خاتمے کی خوشی میں قائداعظم کی اپیل پر نہایت جوش و خروش سے یومِ نجات منایا۔ اس موقع پر گلبرگہ کے مسلمانوں نے ایک ٹیلی گرام گاندھی جی کو ارسال کیا جس کے الفاظ تھے ’’یومِ نجات کی تہنیت۔۔۔ قائداعظم زندہ باد‘‘۔ گاندھی جی کانگریسی حکومتوں کے خاتمے پر ویسے ہی چراغ پا تھے، یہ ٹیلی گرام ملتے ہی اور بھڑک اُٹھے۔ انہوں نے 16جنوری 1940ء کو قائداعظم کی خدمت میں ایک خط ارسال کیا جس کے آغاز پر محمد علی جناح کے بجائے محترم قائداعظم لکھا اور پھر خط میں وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ ’’کسی ہندوستانی کے نام کے آگے ’’مسٹر‘‘ تحریر کرنا مجھے پسند نہیں اور یہ غیر موزوں بھی ہے، اس لیے حکیم صاحب مرحوم (حکیم محمد اجمل خان) کے بتائے ہوئے طریقے کے مطابق میں آپ کو ہمیشہ ’’جناح صاحب‘‘ کے الفاظ سے مخاطب کرتا رہا ہوں، لیکن امت السلام (گاندھی جی کی ایک داسی) نے مجھ سے کہا کہ لیگی حلقوں میں آپ کو قائداعظم کہہ کر مخاطب کیا جاتا ہے۔ اور اب یہ ٹیلی گرام دیکھ کر جو گلبرگہ سے وصول ہوا ہے اس کی مزید تصدیق ہوتی ہے۔ مجھے امید ہے کہ آپ باور کریں گے کہ جو کچھ میں نے کیا ہے وہ نیک نیتی کے ساتھ اور آپ کی خاطر کیا ہے۔ اگر آپ چاہیں کہ میں کسی دوسرے القاب سے آپ کو مخاطب کروں تو بہرحال اس کی بھی تعمیل کی جائے گی‘‘۔ گاندھی جی کے اس خط کا جواب قائداعظم نے 21جنوری 1940ء کو دیا۔ قائداعظم نے اپنے خط میں دیگر اُمور پر روشنی ڈالنے کے علاوہ اس خطاب کے استعمال کے بارے میں لکھا کہ: ’’القاب کی اہمیت ہی کتنی ہوتی ہے۔ گلاب کو خواہ کسی بھی نام سے یاد کیا جائے، اس کی خوشبو بہرحال باقی رہے گی۔ اس لیے میں اس معاملے کو آپ کی مرضی پر چھوڑتا ہوں اور اپنی کسی رائے کا اظہار نہیں کرتا۔ البتہ میری سمجھ میں یہ نہیں آتا کہ آپ اس کے لیے اتنے پریشان کیوں ہیں! بہرحال مجھے معلوم ہوا ہے کہ جو خطاب اس وقت آپ استعمال کررہے ہیں وہ حکیم صاحب مرحوم کے بتائے ہوئے ہیں، لیکن تعجب کی بات یہ ہے کہ حکیم صاحب کی زندگی میں بھی اور ان کے انتقال کے بعد بھی ایک عرصے تک آپ نے مجھے مسٹر ہی کے لفظ سے مخاطب کیا ہے، اس کے بعد سے حال تک آپ نے مجھے ’’شری‘‘ کے لقب سے مخاطب کیا ہے لیکن اس ضمن میں زیادہ تردد اور فکر کی حاجت نہیں‘‘۔
گاندھی جی کی جانب سے محمد علی جناح کے لیے’’قائداعظم‘‘ کا خطاب استعمال کرنے کا سب سے زیادہ رنج مولانا ابوالکلام آزاد کو ہوا جس کا انہوں نے برسوں کے بعد اپنی کتاب ’’انڈیا ونز فریڈم‘‘ میں اظہار کیا۔ وہ لکھتے ہیں: ’’یہ گاندھی کی ذات تھی جس نے ’’قائداعظم‘‘ کے خطاب کو جو مسٹر جناح سے منسوب ہوا، شہرت عطا کی۔ گاندھی کے کیمپ میں ایک سادہ مگر نیک خاتون مس امت السلام تھیں۔ انہوں نے چند اُردو اخبارات میں دیکھا کہ مسٹر جناح کو قائداعظم کہا گیا ہے، چنانچہ جب گاندھی جی مسٹر جناح سے ملاقات کا وقت طے کرنے کے لیے خط لکھ رہے تھے تو انہوں نے گاندھی جی سے کہا کہ اُردو اخبارات مسٹر جناح کو قائداعظم کہتے ہیں اس لیے آپ بھی یہی خطاب استعمال کیجیے۔ گاندھی جی نے اپنے اس عمل کے نتائج پر ایک لمحہ بھی غور کیے بغیر مسٹر جناح کو ’’قائداعظم ‘‘ لکھ کر مخاطب کرلیا۔ گاندھی جی کا یہ خط بعد میں اخبارات میں شائع ہوا۔ جب ہندوستان کے مسلمانوں نے یہ دیکھا کہ گاندھی جی نے بھی مسٹر جناح کو قائداعظم کہہ کر مخاطب کیا ہے تو انہوں نے بھی یہ طے کرلیا کہ واقعی مسٹر جناح قائداعظم ہیں۔‘‘
مولانا ابوالکلام آزاد کا یہ بیان صرف مولانا کی انانیت اور خفگی کو ہی ظاہر نہیں کرتا بلکہ ان کے اُس رنج کی بھی نشاندہی کرتا ہے کہ برصغیر میں یہ خطاب سب سے پہلے ان کے لیے استعمال ہوا تھا لیکن آج مسٹر محمد علی جناح کی ذات سے ہمیشہ کے لیے مخصوص ہوکر رہ گیا ہے۔ یہی نہیں بلکہ مولانا آزاد کے بیان کا یہ حصہ کہ گاندھی جی نے مسٹر جناح کو قائداعظم لکھ کر اس خطاب کو مسلمانانِ ہند میں قبولیت عطا کی، حقائق سے چشم پوشی کی واضح دلیل ہے۔ محمد علی جناح کو پہلی مرتبہ 1936ء میں قائداعظم کہا گیا اور پھر یہ خطاب 1938ء کے آغاز میں ان کے نام کا ایک حصہ بن گیا، جب کہ گاندھی جی نے بہت بعد میں یعنی 16جنوری 1940ء کو اپنے خط میں محمد علی جناح کے لیے قائداعظم کا خطاب استعمال کیا تھا۔
قائداعظم کا یہ خطاب محمد علی جناح کو ہندوستان کے مسلمانوں نے اپنے مکمل اعتماد کی علامت کے طور پر دیا تھا۔ اس طرح مسلمان کانگریس کے ان دعووں اور پروپیگنڈے کی بھی نفی کرنا چاہتے تھے جو کانگریس بعض قوم پرست مسلمانوں کو اسلامیانِ ہند کا رہنما بنانے کے سلسلے میں کرتی رہتی تھی، چنانچہ اس طرح مسلمانوں نے محمد علی جناح کو اپنی مکمل نیابت کا وہ حق بھی فراہم کردیا تھا جو اس دَور میں کسی اور مسلمان کو حاصل نہیں تھا۔
قائداعظم کا خطاب محمد علی جناح کے نام کے ساتھ استعمال ہونا اگرچہ 1937-38ء میں عام ہوگیا تھا لیکن جہاں تک لیگ کی سرکاری دستاویزات کا تعلق ہے، ان میں اس خطاب کو کئی برس بعد استعمال کیا گیا۔ سب سے پہلے لیگ کی دستاویزات میں یہ خطاب مسلم لیگ کونسل کی اُس قرارداد میں استعمال ہوا تھا جو 7مارچ 1943ء کو دہلی کے اجلاس میں منظور کی گئی اور جس میں لیگ کے ازسر نو صدر کی حیثیت سے محمد علی جناح کے انتخاب کی تجویز پیش کی گئی تھی۔ بعد ازاں محمد علی جناح کے نام کے ساتھ اس خطاب کے استعمال کی اہمیت ان کی اعلیٰ ترین قیادت اور ہندوستان کی سیاست میں ان کے مؤثر ترین کردار کی روشنی میں پوری دنیا پر واضح ہوتی چلی گئی۔ حتیٰ کہ جون 1947ء میں اسلامیانِ ہند کے لیے ایک علیحدہ وطن کے قیام کا مطالبہ تسلیم کرلیا گیا اور وہ اس ملکِ خداداد ’’پاکستان‘‘ کے بانی اور پہلے گورنر جنرل قرار پائے۔ ان کی اسی حیرت انگیز کامیابی، بے لوث خدمتِ قومی اور شاندار قیادت کو تسلیم کرتے ہوئے پاکستان کی پہلی دستور ساز اسمبلی نے پاکستان کے باقاعدہ قائم ہونے سے صرف دو دن قبل ایک قرارداد کے ذریعے یہ فیصلہ کیا کہ پاکستان کی آئین ساز اسمبلی کے صدر اور پاکستان کے نامزد گورنر جنرل مسٹر محمد علی جناح کو تمام سرکاری فرامین، دستاویزات، خطوط اور مراسلات میں 15اگست 1947ء سے ’’قائداعظم محمد علی جناح‘‘ لکھا جائے گا۔ ایک رہنما کی زندگی میں اس کی قوم کا یہ اعتراف بڑی تاریخی اہمیت کا حامل ہے۔ دنیا کی تاریخ میں کم ہی ایسے رہنما ہوں گے جن کو ان کی قوم نے متفقہ طور پر ایسی قدر و منزلت کی نگاہ سے دیکھا ہو اور پھر اس کا کھلے دل سے اعتراف بھی کیا ہو۔ اگرچہ قائداعظم محمد علی جناح ہر طرح کے القاب و خطابات سے بے نیاز تھے۔ وہ اپنی عوامی زندگی کے تمام عرصے میں ہمیشہ ہی حکومت کی طرف سے کوئی بھی عہدہ، منصب، خطاب یا لقب قبول کرنے سے گریزاں رہے، حتیٰ کہ انہوں نے مسلم یونیورسٹی علی گڑھ کی جانب سے ڈاکٹریٹ کی اعزازی ڈگری تک لینا پسند نہ کی، حالاں کہ وہ اس یونیورسٹی کو بے حد عزیز رکھتے تھے۔ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کی اس پیشکش کو قبول کرنے سے معذرت ظاہر کرتے ہوئے انہوں نے یونیورسٹی کے وائس چانسلر ڈاکٹر ضیاء الدین احمد کے نام 4 اکتوبر1942ء کو اپنے خط میں لکھا: ’’بلاشبہ میں اس جذبے کی بے حد قدرکرتا ہوں جس کے ہاتھوں مجبور ہوکر مسلم یونیورسٹی کے کورٹ نے یہ فیصلہ کیا ہے، تاہم میں بادلِ نخواستہ یہ کہنا چاہتا ہوں کہ میں اب تک محض ’’مسٹر جناح‘‘ کی حیثیت سے زندگی بسر کرتا رہا ہوں اور یہ توقع کرتا ہوں کہ میں صرف ’’مسٹر جناح‘‘ کی حیثیت سے ہی انتقال کروں گا۔ میں ہر قسم کے خطاب، لقب اور اعزاز کا مخالف ہوں اور میرے لیے یہ زیادہ خوشی کی بات ہوگی کہ میرے نام کے ساتھ کوئی سابقہ نہ لگایا جائے‘‘۔
تاریخی تناظر میں دیکھا جائے تو پاکستان کی دستور ساز اسمبلی نے محمد علی جناح کو ’’قائداعظم‘‘ کا خطاب دے کر ان کی اُن خدماتِ جلیلہ کا عام اعتراف کیا تھا جو انہوں نے اپنی 72 سالہ زندگی میں تقریباً 42 سال پر محیط اپنی سیاسی اور عوامی زندگی کے دوران آزادی اور اسلامیانِ ہند کے لیے ایک علیحدہ وطن کے قیام کے لیے سرانجام دی تھیں، اور یہ ایک شاکر قوم کا اپنے مسلمہ رہنما کے لیے ایک جذباتی اور قلبی اعتراف تھا، جیسا کہ 11ستمبر 1948ء کو ان کے انتقال پر لندن کے اخبار ’’دی ٹائمز‘‘ نے اپنے اداریہ میں اعتراف کیا ہے کہ ’’محمد علی جناح، اُن لوگوں کے لیے جن کی انہوں نے رہنمائی کی، ’’قائداعظم‘‘ سے بھی بڑھ کر کچھ اور تھے اور جس اسلامی قوم کی تشکیل انہوں نے خود کی تھی، وہ اس کے معمار ہی نہیں بلکہ اس سے بھی زیادہ تھے‘‘۔