تاریخ کی سیاسی فکر | Tarikh Ki Siyasi Fakar
تاریخ کی سیاسی فکر | Tarikh Ki Siyasi Fakar
آٹھ ابواب پر مشتمل کتاب جس کے آغاز میں مکیاولی سے پہلے فکری دھاروں پر بحث کی گئی ہے۔ مسیحیت، افلاطونیت، خدا، اخلاقیات، سیاسیات اور اس کے بعد نشاۃ ثانیہ __ ان کی وجوہات اور اثرات زیر بحث لائے گئے ہیں اور اس بنیاد پر جدید فکر و فلسفہ کے بانی مکیاولی کی زندگی اور سیاسی نظریات کا احاطہ کیا گیا۔ مصنف مکیاولی کو ان کے عمومی پہچان کی بجائے مثبت انداز میں پیش کرتا ہے۔ تیسرا باب میرے خیال میں بہت اہم ہے کہ اس میں فلسفے اور الہیات کے مابین فرق کو تفصیل سے سمجھانے کی کوشش کی گئی ہے۔
ہوبز، لاک، روسو، ہیگل، کانٹ، مارکس، لینن وغیرہ کے سیاسی فلسفیانہ نظریات اور ان کے فرد، معاشرے اور ریاست پر اثرات کا تنقیدی جائزہ لیا گیا ہے۔
آخری باب میں گرامچی کے نظریات کا تفصیلی ذکر دیا گیا ہے۔ اکثر مقامات پر انہوں نے تقابلی مطالعے اور جائزے کی بنیاد پر سیاسی مفکرین کے نظریات کے حوالے سے معروف آرا سے ہٹ کر اپنے خیالات کا کھلم کھلا اظہار کیا ہے۔ اس سلسلے میں انہوں نے تاریخ سے ثبوت لے کر اپنی رائے کو عقلی و منطقی انداز سے بیان کرنے کی کوشش کی ہے۔
دراصل مصنف ایک ایسی ریاست اور معاشرے کا خواہاں ہے جس میں کسی کا بھی استحصال نہ ہو، سارے افراد بنیادی سہولیات سے مستفید ہو سکیں اور کوئی بھی محروم طبقہ باقی نہ رہے۔
اشفاق سلیم مرزا صاحب فلسفہ، سیاسیات اور تاریخ پر گہری نظر رکھتے ہیں اور پیرانہ سالی کے باوجود بھی ان موضوعات پر تشنگان علم سے مکالمہ کرنے اور رہنمائی دینے میں پیش پیش رہتے ہیں۔ "مکیاولی سے گرامچی تک" ان کی ایک طرح سے گہرے مطالعے کا نچوڑ ہے جو ان کی برسوں تحقیق اور محنت کا گراں قدر نتیجہ ہے۔