Skip to product information
1 of 1

دریائے آمو کے کنارے | عصمت درانی

دریائے آمو کے کنارے | عصمت درانی

Regular price Rs.250.00 PKR
Regular price Rs.500.00 PKR Sale price Rs.250.00 PKR
Sale Sold out
Shipping calculated at checkout.
لیاقت پور ادبی فورم کے جنرل سیکرٹری طارق ملک کا روز نامہ جنگ ملتان میں شائع ہونے والا آرٹیکل " دریائے آمو کے کنارے" احباب کی نذر _____🥀♥
"خوشبو لٹاتی پھولوں سے سجی روشیں خوبصورت منظر پیش کر رہی تھیں۔دلکشی میں مزید اضافے کا سبب شفاف پانیوں سے لبالب بھرے حوض اور رنگین روشنیاں بکھیرتے پانی کی دھاریں اچھالتے حسین سنگی فوارے تھے۔ بچے اور کمسن لڑکیاں،بالے بھاگتےدوڑتے، سائیکل چلاتے،پاپ کارن ٹونگتے، برگر کھاتے اور کون چاٹتے زندگی کی انمول خوشیاں کشید کر رہے تھے" یہ چند سطور ڈاکٹر عصمت درانی کے سفر نامہ " دریائے آمو کے کنارے" کی ہیں جو انہوں نے "وسطی ایشیا سائنس، ثقافت اور تجارت میں اطلاعات اور کتب خانہ جاتی مآخذ " کے عنوان سے ازبکستان میں منعقدہ ایک بین الاقوامی کانفرنس میں شرکت کے دوران ازبکستان میں اپنے چودہ روزہ قیام کے دنوں میں سفر و حضر کے مشاہدات اور حالات و واقعات کو قرطاس ابیض پر اتار کر " دریائے آمو کے کنارے " کے عنوان سے ایک سفر نامہ شائع کیا ہے جو کہ ادب کی دنیا میں نہایت خوبصورت اضافے کا باعث ہے ڈاکٹر عصمت درانی کا نام علم و ادب کی دنیا میں کسی تعارف کا محتاج نہیں ہے وہ اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور میں نہ صرف فارسی کی ایسوسی ایٹ پروفیسر ہیں بلکہ شعبہء فارسی کی چیئرپرسن بھی ہیں قبل ازیں وہ اپنی دو تصانیف " تذکرہ شیخ دولا گجراتی(فارسی سے اردو ترجمہ) اور " نوابان بہاولپور کے کتب خانوں کی تاریخ " ادب کو دان کر چکی ہیں جبکہ کتب خانہ سلطانی کے علاوہ ان کے متعدد تحقیقی مقالہ جات اور ادب و ثقافت پر مبنی کئی مضامین مختلف قومی اخبارات کے علاوہ قومی و بین الاقوامی رسائل و جرائد میں بھی شائع ہو چکے ہیں دریائے آمو کے کنارے ان کا ایک تازہ سفر نامہ ہے جسے دنیائے ادب میں خوب سراہا جا رہا ہے
دریائے آمو وسط ایشیا کا سب سے بڑا دریا ہے جو پامیر کے پہاڑوں سے نکل کر افغانستان، تاجکستان، ترکمنستان اور ازبکستان کی قریباً 2400 کلومیٹر مسافت طے کرتے ہوئےبحیرہ ارال(Aral Sea) میں جا گرتا ہے(بحیرہ ارال دراصل دنیا کی چوتھی بڑی جھیل ہے جس کے چاروں طرف زمین ہے تاہم اس جھیل کے وسیع حجم کے باعث اسے بحیرہ ارال کا نام دیا گیا ہے جبکہ تاریخ کی کتابوں میں اس جھیل کو خوارزم کے نام سے بھی جانا جاتا ہے) یہ وہی دریائے آمو ہے جس کے متعلق پروفیسر عصمت درانی اپنے سفرنامے میں لکھتی ہیں کہ " وخش اور آمو آریائی قوموں کے لیے مقدس دریا رہے ہیں جنہیں خوارزم کے لوگ سجدہ کرتے تھے کیونکہ یہ دریا زمینوں کو شاداب بناتے تھے لوگوں کو رزق اور جانوروں کو گھاس اور چارے سے نوازتے تھے مزید لکھتی ہیں کہ " سکندر اعظم نے اپنے حملوں کے دوران مختلف ممالک سے بطورِ مال غنیمت جو خزانہ حاصل کیا تھا وہ دریائے آمو کے ساحلوں پر اتفاقاً کھو گیا تھا اور بعض روایات کے مطابق پانی میں بہہ گیا تھا اسی خزانے کا بازیاب شدہ کچھ حصہ بعد ازیں کئی ہاتھوں سے ہو کر اور ہزاروں میل کا فاصلہ طے کر کے بالآخر برطانیہ کے میوزیم کی مضبوط پناہ گاہوں میں جا پہنچا"
سفر نامے کا نام اگرچہ "دریائے آمو کے کنارے" رکھا گیا ہے مگر اس کا یہ ہرگز مطلب نہیں ہے کہ دریائے آمو ہی اس سفر نامے کا خاص موضوع ہے بلکہ سفر نامے میں ازبکستان کے تاریخی پسِ منظر، خوبصورتی،روحانیت، علم و ادب اور تہذیبی خدوخال پر بھی روشنی ڈالی گئی ہے خصوصاً تاشقند، ترمذ، سمرقند اور بخارا میں مقیم لوگوں کے رہن سہن، بول چال، رسم و رواج، شادی بیاہ اور مہمان نوازی کا بھی خوب تذکرہ کیا گیا ہے مصنفہ لکھتی ہیں کہ " تاجکوں کی رسم ہے کہ کسی کے ہاں جب بھی کوئی مہمان آئے اور کھانے کی میز پر بیٹھے تو میزبان دعا مانگتا ہے اور اللہ کا شکر ادا کرتا ہے کہ اس کے گھر مہمان آیا ہے اور خدا کی رحمت نازل ہوئی ہے"
سفر نامے میں ازبکستان کے دو درجن سے زائد مزارات کا بھی ذکر کیا گیا ہے جو اپنی خوبصورتی کے لحاظ سے پر شکوہ اور فن تعمیر کا شہکار بتائے گئے ہیں یہ مزارات تاشقند،ترمذ، سمرقند اور بخارا میں ہر خاص و عام کے لیے مرجع خلائق ہیں خصوصاً حضرت ابو عبداللہ محمد بن اسماعیل بخاری المعروف حضرت امام بخاری رحمتہ اللہ علیہ کا مزار ان کی گراں مایہ شخصیت اور ان کے نام سے منسوب قلعہ بخارا اور حضرت امام بخاری تحقیقاتی مرکز و میوزیم کی اہمیت و افادیت پر بھی روشنی ڈالی گئی ہے اور بتایا گیا ہے کہ " میوزیم میں وہ قرآن مجید بھی موجود ہے جو حضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالٰی عنہ اپنی شہادت کے وقت تلاوت کر ریے تھے اور اس پر خون کے دھبے بھی موجود ہیں جو ان کی شہادت کے وقت پڑے تھے کہا جاتا ہے کہ یہ قرآن مجید امیر تیمور سمرقند لائے تھے تاہم سوویت یونین کے دور میں اس قرآن مجید کو ماسکو منتقل کر دیا گیا تھا بعد ازاں لینن نے اسے واپس تاشقند بھجوا دیا تھا" جبکہ قلعہ بخارا جو روایات کے مطابق سیاوش ابن کیکاوس نے پانچویں صدی عیسوی میں تعمیر کرایا تھا کی تاریخی اہمیت بیان کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ قلعہ کی فصیل چولستان کے قلعہ ڈیراور سی دکھائی دیتی ہے قلعہ بخارا دفاعی ضروریات کے علاوہ بخارا کے حکمرانوں اور سرکاری عہدیداران کے لیے بھی استعمال ہوتا رہا ہے قلعہ بخارا متعدد مرتبہ نہ صرف شکست و ریخت کا شکار رہا بلکہ کئی مرتبہ حملہ آوروں کے ہاتھوں تباہ بھی ہوا ہے اب قلعہ کا بیشتر حصہ میوزیم کی شکل اختیار کر چکا ہے جس کے ایک حصے میں امرائے بخارا کے ملبوسات ،دستاریں، تلواریں، تمغے،تکمے اور روز مرہ استعمال کی چیزیں رکھی گئی ہیں جبکہ دوسرے حصے میں حنوط شدہ درندوں، پرندوں، جانوروں اور حشرات الارض کے لاشے کیمیائی محلول سے محفوظ کیے گئے ہیں سفر نامے کی خاص بات یہ ہے کہ یہ قاری کو اپنے حصار میں لے لیتا ہے اور ایسا محسوس ہوتا ہے کہ وہ خود ازبکستان میں موجود ہے اور تمام مناظر اس کی آنکھوں کے سامنے رونما ہو رہے ہیں جبکہ طنز و مزاح کے خوبصورت امتزاج نے سفر نامہ کو چار چاند لگا دیے ہیں
سفر نامہ میں ازبکستان کے تاریخی مقامات، عمارات،مزارات،بازاروں اور سیاحوں کی خوبصورت اور دیدہ زیب تصویریں بھی شامل کی گئی ہیں علاوہ ازیں حافظ شیرازی، خواجہ غلام فرید،معین الدین فضل اللہ،دستگیر پنجتیری،فردوسی، مجید امجد، لائق شیر علی، سلیم کوثر اور ن م _ راشد کے اردو، فارسی و سرائیکی شعروں کے برمحل استعمال سے سفر نامے کی خوبصورتی میں مزید اضافہ ہوا ہے المختصر دریائے آمو کے کنارے ایک ایسا سفر نامہ ہے جو قاری پر علم و آگہی کے نئے در وا کرتا ہے جس سے وہ اپنے دامنِ طلب میں بہت کچھ سمیٹ سکتا ہے۔#
طارق ملک
اللہ آباد _تحصیل لیاقت پور
ضلع رحیم یار خان
View full details