اسلامی نظریہ ابلاغ | قرآن و حدیث کی روشنی میں | Dr Haseeb Warriach
اسلامی نظریہ ابلاغ | قرآن و حدیث کی روشنی میں | Dr Haseeb Warriach
انسانی فطرت میں جبلی طور پر خصوصیت رکھ دی گئی ہے کہ وہ اپنے خیالات و جذبات کو دوسروں تک پہنچانے اور دوسروں کے احوال سے باخبر رہنے کی خواہش رکھتا ہے۔ چنانچہ نوع انسانی کی تاریخ میں " ابلاغ " یعنی دوسروں کو اپنے مدعا، افکار، خیالات و تصورات ڈھنگ سے پہنچانا ایک مسلسل عمل رہا ہے۔ ابلاغ کے متنوع ذرائع اور ایجادات نے معاشرتی ذهن سازی میں کلیدی کردار ادا کیا ہے۔ ذرائع ابلاغ کی جدت اور محیر العقول ترقی کے سبب دنیا سمٹ کر ایک گلوبل ویلیج کی شکل اختیار کر چکی ہے۔ اب پلک جھپکتے ہم دنیا کے کسی بھی حصہ میں وقوع پزیر واقعات سے باخبر ہو جاتے ہیں۔
اقوام عالم پر ابلاغ کے تہذیبی ، مذہبی ، ثقافتی اور سیاسی اثرات مرتب ہوتے ہیں، نہ صرف عسکری اور تعلیمی بلکہ معاشی ترقی کا ہر گوشہ موثر ابلاغ کا مرہونِ منت ہے۔ قدیم زمانوں سے ابلاغ کے مختلف طریقے مختلف تہذیبوں میں مروج رہے ہیں، اسلام نے بھی اپنا " ابلاغی نظریہ " پیش کیا جس کی بنیاد صداقت اور کھوج یعنی تحقیق وردیانت پر رکھی گئی ۔ اسلام میں ابلاغ اور صحافت کے الفاظ پر غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ دونوں لفظ اسلام میں انتہائی مقدس استعمال ہوئے ہیں۔ چنانچہ ابلاغ کا لفظ قرآن کریم میں پیغام خداوندی کو لوگوں تک پہنچانے کے لئے استعمال کیا گیا ہے۔ اللہ تعالی نے نبی آخر الزمان صلی اللہ علیہ وسلم کو بنی نوع انسانی تک اپنے پیغام کے ابلاغ کے لئے ہی مبعوث فرمایا۔ قرآن کریم میں ہے:
يا ايها الرسول بلغ ما انزل اليك من ربك " ۔
اے رسول ( صلی اللہ علیہ وسلم ) پہنچادیجئے جو آپ پر نازل کیا گیا ہے۔"
چناچہ لوگوں نے اپنے باطل نظریات کو ترک کیا اور صداقت پر مبنی اس موثر ابلاغ نبوی کے نتیجے میں اسلامی عقیدہ کے قائل ہو گئے ۔
دوسر الفظ صحافت ہے، جس کا معنی اوراق پر لکھنے کا عمل ہے ۔ یہ لفظ صحیفہ سے نکلا ہے، یہ اسلامی نظریه ابلاغ اتنا مقدس ہے کہ خود قرآن کریم کے الفاظ جس ورق پر تحریر ہوں، اس کو صحیفہ کہا جاتا ہے۔ گویا اسلام میں صحافتی ابلاغیات کی حیثیت ایک نبوی پیشہ سے کم نہیں۔
اس طرح اسلام میں صحافت اور ابلاغ ایک اہم ذمہ داری اور دیانتدارانہ فریضہ کی شکل اختیار کر جاتی ہے۔ لہذا ذرائع ابلاغ کو رائے عامہ کی تشکیل میں دیانت ، صداقت ، عفت وحیا اور خیر و فلاح کی بنیاد پر آگے بڑھنا ہو گا نیز ایسا ابلاغ جس سے بے راہ روی، بے حیائی اور فواحش و منکرات اور جھوٹ وذلت معاشرے میں سرایت کریں، ان عناصر کی بیخ کنی اسلام کی تعلیمات میں واضح کی گئی ہے۔ قرآن کریم سورۃ النور میں ارشاد باری تعالی ہے : إِنَّ الَّذِينَ يُحِبُّونَ أَن تَشِيعَ الف حِشَةُ فِي الَّذِينَ تَامَنوا لَهُم عَذَابٌ أَلِيمٌ فِي الدُّنيا والناخِرة - یعنی ان لوگوں کیلئے جو یہ چاہتے ہیں کہ مسلمانوں میں بے حیائی پھیلے دنیا اور آخرت میں درد ناک عذاب ہے۔ ہر قوم کا اپنا مخصوص فلسفہ حیات ہوتا ہے جس کے مطابق وہ اپنی زندگی کا تانا بانا تشکیل دیتی ہے، اسلامی معاشرہ بھی اپنی صحافتی ابلاغیات میں کچھ پابندیاں لگاتا ہے جو کسی طرح بھی آزادی اظہار پر قدغن نہیں، بلکہ ایک خالص مسلم معاشرہ کی تشکیل و تعمیر اور فوز و فلاح کی ضامن ہے۔
اسلامی نظریہ ابلاغ کا ایک خصوصی وصف یہ بھی ہے کہ اس میں خبر کا ذریعہ، اس کی پختگی ، چھان بین اور تحقیق و تفتیش یعنی کو مرکزی حیثیت حاصل ہے
چناچہ قرآن کریم میں خبر کو پرکھنے کا حکم واضح دیا گیا ہے۔
أَيُّهَا الَّذِينَ ثَامَنُوا إِن جَانَّكُم فَاسِقٌ بِنَبَإٍ فَتَبَيَّنُوا أَن تُصِيبُوا قَوْمًا بِجَهَلَةٍ فَتُصْبِحُوا على ما فعلتُم تدمينَ (سورۃ الحجرات)
" اے مسلمانو! اگر تمہیں کوئی فاسق خبر دے تو تم اس کی اچھی طرح تحقیق کر لیا کرو ایسا نہ ہو کہ نادانی میں کسی قوم کو ایذا پہنچا دو پھر اپنے کیے پر پشیمانی اٹھاؤ حقیقت یہ ہے کہ ہمارے معاشرے میں اکثر جھگڑے اور دنگ و فساد جھوٹ پر مبنی خبروں پر بغیر تفتیش و تحقیق اعتبار کر لینے کے سبب پیدا ہوتے ہیں۔ چنانچہ غلط خبر کو عام کرنے پر بھی پابندی لگادی گئی ، آنجناب علیہ الصلوۃ والسلام کا ارشاد ہے :
كَفَى بِالمَرْئِ كَذِباً أَنْ يُحَدِّثَ بِكُلِّ ما سمع " آدمی کے جھوٹا ہونے کے لئے یہی کافی ہے کہ وہ جو سنے اسے بیان کر دے۔
الغرض اسلام کا ابلاغی نظر یہ انسانوں کے حقوق اور معاشرتی اقدار کے تحفظ کو یقینی بناتا ہے۔ اسلام کے ان زریں اخلاقی ضوابط پر عمل کرتے ہوئے ذرائع ابلاغ کے استعمال سے ہم اپنی قوم میں جہاں سیاسی، تہذیبی اور جمہوری شعور پیدا کر سکتے ہیں وہاں انہی ذرائع کے ذریعہ امر بالمعروف و نہی عن المنکر کو فروغ دیتے ہوئے اسلامی تشخص کو صحافتی ابلاغی نظریہ کی بنیاد بنا بنائیں، ئیں، ان زریں اصولوں کو اپناتے ہوئے عصبیت اور لسانی، مذہبی و دیگر علاقائی تعصبات کا قلع قمع کر سکیں اور از سر نو اسلامی اخوت و اتحاد پر مبنی قوم رسول ہاشمی کی تشکیل نو ممکن ہو سکے۔
پروفیسر ڈاکٹر محمد نواز محسود خان جو میڈ یا سٹڈیز کے ماہر معلم اور اتالیق ہیں، نے اپنی زندگی کے کئی ماہ و سال اسی فکر میں گزارے کہ کسی طرح ابنائے امت اپنا عظمت رفتہ کو پاسکتے ہیں، کس طرح اپنی اقدار اور اخلاقیات کے ذریعہ قومی عروج میں اپنا حصہ ڈال سکتے ہیں ، امت کی ہچکولے کھاتی کشتی کو کسی طرح کنارے لگایا جا سکتا ہے؟ ان سوالوں میں سرگرداں رہنے والے پروفیسر ڈاکٹر نو از محسود کو 2018 میں حج بیت اللہ کی سعادت حاصل ہوئی ، وہاں کعبتہ اللہ کے سامنے ان کی نیم شبی کی آہیں کام لے آئیں اور وہ مسودہ جو انہوں نے بہت عرصہ پہلے صحافت اور ابلاغ کے اسلامی اخلاقی وضوابط سے متعلق جمع کر رکھا تھا، کی اشاعت کا عزم مصمم کیا۔ اس سفر حج میں راقم اٹیم کو بھی ان کی معیت کا موقع نصیب ہو گیا ۔ سلسلہ کلام اسی موضوع پر چلتا رہتا کئی موضوعات زیر بحث آتے، طے پایا کہ اپنی بساط کے مطابق اسلامی اخلاقیات صحافت کو نسل نو کے سامنے پیش کیا جائے تا کہ حق و صداقت کے چلو میں قو می فکر کی تشکیل نو ہو سکے ۔ چنانچہ اس مسودہ کی پروف خوانی کے بعد اس کی طباعت کے لئے ڈاکٹر صاحب موصوف کمر بستہ ہو گئے ہیں ۔ اللہ تعالی ان کی اس کاوش کو شرف قبولیت عطا فر مائے اور دنیا و آخرت کے لئے سامان عافیت و باعث حسنات بنائے ۔ آمین ثم آمین ۔
پروفیسر ڈاکٹر محمد فیروز الدین شاہ
صدر شبعہ اسلامی و عربی علوم
یونیورسٹی آف سرگودھا۔