ہم نے اپنے ماحول اور انفرادی و اجتماعی زندگی کو اس حد تک جامد، خشک، بور، بے کیف، حسن اور لطف سے عاری کر رکھا ہے کہ بحیثیت حیوان جن جبلی جنگلی خوشیوں پر ہمارا حق ہو سکتا تھا، یہ کہہ کر کہ ہم حیوان نہیں انسان ہیں، اُن سے خود کومحروم کر لیا، اور انسان ہونے کے ناطے جن خوشیوں پر حق ہو سکتا تھا انھیں یہ کہہ کر رد کر دیا کہ ہم انسان نہیں مسلمان ہیں۔ یہ ہے ہمارا ثقافتی المیہ ہمارا شمار حیوانوں میں ہے نہ انسانوں میں۔ ثقافت نے حیوانیت اور انسانیت کے دائرے میں ہی رہ کر پرورش پانا تھا۔ نتیجہ یہ کہ ہم اجتماعی طور پر حسن کے احساس اور خوشیوں کی لذت سے آشنا ہی نہیں ہیں، بلکہ ان کے بیری بن چکے ہیں۔ اب سنجیدگی کا مارا، تاریکی پسند اور جمالیاتی حسوں سے محروم انبوہ کثیر، عالمی تہذیب نو سے اپنی ثقافتی ، سیاسی اور معاشی دشمنی میں اضافہ کیے چلا جارہا ہے۔ بربادی اور موت کی علامتوں سے اپنی شاہراہوں کو سجانے میں فخر محسوس کرتا ہے۔ خود ساختہ اخلاقیات اور پارسائی کے خبط نے ماحول میں مردنی، گھٹن اور بے کیفی اس حد تک پیدا کر رکھی ہے کہ اس کے اندر زندگی اور دنیا کو خوبصورت بنانے یا اسے ترقی دینے کی لگن اور دلچسپی کہیں دکھائی نہیں دیتی۔۔۔