مقامی آدمی کا موقف | Maqami Admi Ka Moqaf | Riffat Abbass | Munawar Akash
مقامی آدمی کا موقف | Maqami Admi Ka Moqaf | Riffat Abbass | Munawar Akash
س۔ آپ نے کافیاں لکھیں 21ویں صدی میں کافیاں لکھنے کا کیا جواز بنتا ہے ؟
ج ۔ جی بلکل میں نے کافیاں لکھیں اور 21ویں صدی کی پہلی دہائی میں کافیوں کے دو مجموعے عشق اللہ سئیں جاگیا ،، (2005) مکھ آدم دا( 2008 ) میں چھپے ، میرے خیال میں جدید کافی کا جواز 1947 میں ہی پیدا ہوگیا تھا جب خدا کے نام پر بننے والی اس ریاست میں تصور خداوندی کو مقامی آدمی کے خلاف برتا گیا ۔ ہر چیز ایک نظریے کی دھند میں لپٹ کر سامنے آئ ۔نظریاتی مملکت، نظریاتی سرحدیں ،نظریہ ضرورت اس ساری تجرید میں اس دھرتی پر بسنے والے حقیقی باشندے شدید مایوسی اور تنہائ کا شکار ہیں ریاست ہماری جڑوں سے نا پھوٹی بلکہ اوپر سے مسلط ہوئ جیسے کسی چھکڑے پر لاد کر لائ گئ ہو ۔ریاست کے بڑے بڑے شامیانے لگا دیے گۓ اور اندر ہونے والا تماشا مقامی آدمی ٹکٹ خرید کر بھی نا دیکھ سکا ۔ریاست کی راہداریوں میں گملے سجا دیئے گۓ جس میں نظریے کے پودے اگے ۔یہاں ہر چیز گملے میں اگی ۔ سیاست،معشیت ،ریاست،مذہب،یہاں سب کچھ گملے میں اگایا گیا اور کسی چیز کی جڑ زمین میں پیوست نا ہوسکی ۔یہاں تک کہ خدا کے مہربان تصور کو فراموش کر کے حکمرانوں کا خود ساختہ رب گملے میں اگانے کی کوشش کی گئ ۔ ہم یہ نام نہاد گملے توڑ کر ہر چیز کی جڑیں زمین میں استوار دیکھنا چاہتے ہیں ۔ ہم خدا کے مہربان تصور کو اس دھرتی کے ساتھ ہم آہنگ دیکھنا چاہتے ہیں ۔وہ رب عظیم کے تصور کو مقامی آدمی کے خلاف استعمال کرنے کے در پے تھے لیکن ہمارے پاس کافی کی روایت اور تجربہ موجود تھا ۔ہم ان کے وار کو خطا کر سکتے تھے۔ہم جانتے ہیں رب ہماری طاقت ہے اور اسے ہمارے خلاف نہیں برتا جاسکتا
۔ رب کی طاقت جب حملہ آور کے حربے کی بجاۓ مقامی بندے کی ڈھارس بن جاۓ تو کافی جنم لیتی ہے۔
سائیں رفعت عباس سے انٹرویو اور مکالمہ کی کتاب " مقامی آدمی کا موقف" سے اقتباس