محبتوں کے آسیب | Muhabto ki Asaeb
محبتوں کے آسیب | Muhabto ki Asaeb
Regular price
Rs.400.00 PKR
Regular price
Rs.500.00 PKR
Sale price
Rs.400.00 PKR
Unit price
/
per
نام کتاب: Of love and other demons
ترجمہ: محبتوں کے آسیب
مترجم: ضیاء الحق
سن اشاعت: 2012
ناشر: فکشن ہاؤس لاہور
گیبریل گارشیا مارکیز کا نام عالمی ادب سے دلچسپی رکھنے والوں کے لئے نیا ہرگز نہیں۔ آپ کولمبیا سے تعلق رکھنے والے مصنف ہیں جنہیں اپنی تحاریر کی بنا پہ ادب کا نوبل انعام بھی مل چکا ہے۔ آپ کے قلم سے کئی ناول اور مختصر کہانیاں نکل چکی ہیں جنہوں نے بے انتہا شہرت پائی۔ ان کتابوں میں One Hundred Years of Solitude، No One Writes to the Colonel، اور Love in the Time of Cholera وغیرہ شامل ہیں۔ آنے والے دنوں میں ان شاء اللہ یہ کتب بھی کتابستان کا موضوع بنیں گی۔
کتابستان کا آج کا موضوع گیبریل کے قلم سے نکلی ہوئی ایک مختصر کہانی ہے جس کا عنوان ہے Of love and other demons۔ اس کہانی کا اردو میں ترجمہ ضیاء الحق صاحب نے “محبتوں کے آسیب” کے عنوان کے تحت کیا ہے۔ یہ ایک بارہ سالہ لڑکی سائیوا ماریہ کی زندگی کی کہانی ہے جو اس وقت شروع ہوتی ہے جب ایک آوارہ اور پاگل کتا اس لڑکی کو کاٹ جاتا ہے۔ یہ لڑکی اپنی ماں اور باپ دونوں کی عدم توجہی کا شکار تھی، اس کا بچپن افریقی غلاموں کی سنگت میں گزرا۔ یہی وجہ تھی کہ وہ کئی افریقی زبانوں سے واقفیت رکھتی تھی، اس کے انداز، طور طریقے سب افریقی غلاموں کی سنگت کے سبب انہی کے جیسے تھے۔ سائیوا ماریہ کی خاص بات اسکے بےانتہا لمبے اور سنہری بال تھے جو اس کے قدموں تک آتے تھے۔ کتے کے کاٹنے کے واقعے کے بعد سائیوا ماریہ کو پاگل پن کے خطرے سے بچنے کے لئے علاج کے تکلیف دہ عمل سے گزرنا پڑا۔ تاہم معالج کسی قسم کے نتیجے پہ نہ پہنچ سکے بالآخر یہ خیال کیا گیا کہ وہ آسیب زدہ ہے۔ افریقی زبان سے واقفیت، غیر معمولی طاقت اور غلاموں جیسے انداز و اطوار نے اسے آسیب زدہ سمجھنے میں مزید کردار ادا کیا اور اسے کلیسا کے حوالے کر دیا گیا۔ ایک عیسائی پادری ڈیلدارا اس کے علاج پہ معمور ہوا تاکہ جھاڑ پھونک کے عمل سے اس کے جسم میں چھپے شیطان پہ قابو پایا جا سکے۔ لیکن پادری، سائیوا ماریہ کے عشق میں گرفتار ہوگیا۔ اس عشق کا کیا نتیجہ نکلا، یہ جاننے کے لئے تو ناول ہی پڑھنا پڑے گا۔
ناول تقریباً دو سو سال پرانے زمانے کے حساب سے لکھا گیا ہے۔ پہلا صفحہ کھولتے ہی قاری خود کو پرانے زمانے کے ایسے ماحول میں پاتا ہے جس میں افریقی غلام، پاگل آوارہ کتے، توہم اور جاہلانہ رسومات وغیرہ پائی جاتی ہیں۔ ناول کا آغاز گرچہ آہستگی سے ہوتا ہے اور ابتدا میں کرداروں کا تعارف طویل محسوس ہوتا ہے تاہم ہر پلٹتے صفحے کے ساتھ قاری کتاب میں کھوتا چلا جاتا ہے اور اسے احساس ہی نہیں ہوتا کہ وہ کب کتاب کی گرفت میں آیا۔ پادری اور ایک راہبہ کے عشق ممنوعہ کی کہانی پڑھتے ہوئے بالکل بھی ممنوعہ محسوس نہیں ہوتی۔ اور یہی مصنف کا کمال ہے کہ کہانی پڑھتے ہوئے کئی غیر حقیقی باتوں پہ بھی قاری کو اعتراض نہیں ہوتا جیسے سائیوا کے غیر معمولی لمبے بال۔۔۔
یہ ایک غیر معمولی ناول ہے جس کی کہانی عام روٹین کی کہانیوں سے الگ ہے۔ دو سو سال پہلے کی زندگی کس طرح کی تھی، غلاموں کے ساتھ رہنا انسانی زندگی پہ کس طرح اثر ڈالتا تھا، عیسائی چرچ کس حد تک توہم پرستی کا حامل تھا، یہ سب جاننے کے لئے یہ ناول ضرور پڑھنا چاہئے۔ وہ قاری جو سنجیدہ اور گہرائی میں لکھے گئے ادب کا مطالعہ کرنا چاہتے ہیں ان کو یہ کہانی مایوس نہیں کرے گی