ڈرپوک | Darpook | Hussian Shahid | حسین شاہد | مشتاق عادل | Mushtaq Adil
ڈرپوک | Darpook | Hussian Shahid | حسین شاہد | مشتاق عادل | Mushtaq Adil
جناب مشتاق عادل کو یہ کریڈٹ جاتا ہے کہ انھوں نے پنجابی کشن کو اردو میں تر جمانے کا سلسلہ شروع کر رکھا ہے۔ اس سے پہلے وہ محترم افضل احسن رندھاوا کے ناول دو آبہ کا اُردو میں ترجمہ کر چکے ہیں ۔ آج تک پنجابی فکشن کو اُردو قارئین تک پہنچانے کی کوئی سنجیدہ کوشش نظر نہیں آتی۔ سندھی اس لحاظ سے خوش قسمت زبان ہے کہ اس میں لکھنے والے ایک طرف قابل قدر بین الاقوامی فکشن کو سندھی میں جلد از جلد ڈھالنے کی تگ و دو کرتے ہیں اور دوسری طرف سندھی زبان کے فکشن کو اُردو میں منتقل کرتے نظر آتے ہیں۔ پاکستان کے کسی بھی ادبی رسالے کو اٹھا کر دیکھ لیں اس میں سندھی فکشن ضرور موجود ہوگا۔
محترم حسین شاہد کے پنجابی ناول ڈراکل کے اُردو تر جے ڈرپوک سے دیگر قومی زبانوں کے قارئین بھی مستفید ہو سکیں گے۔ دوسری طرف پنجاب کے وہ اُردو لکھاری جو اپنی مادری زبان پڑھنے سے قاصر ہیں انھیں بھی پنجابی فکشن پڑھنے کی سہولیت میسر ہو جائے گی۔ محترم شاہد حسین شاہد پنجابی کے قدآور ادیب ہیں۔ اُن کی کتابوں میں لا پریت ( کہانیاں ) پورنے (تنقید) ، ڈراکل (ناول)، عشق تے روٹی (شاعری) شامل ہیں۔ اس کے علاوہ انھوں نے کچھ اُردو کتا بیں بھی لکھی ہیں۔ وہ چالیس پینتالیس سال تک بالینڈ میں مقیم رہے، وہ کہا کرتے تھے کہ وطن عزیز میں رہنے کے لیے جو خاص قسم کی قابلیت درکار ہے اُس سے وہ محروم ہیں۔ اس کے باوجود انھوں نے پنجابی زبان سے اپنا رشتہ جوڑے رکھا۔
ڈراکل رڈرپوک کی کہانی چالیس پینتالیس برسوں پر محیط ہے۔ ناول کے شروع میں ناول نگار نے اشرافیہ اور دیگر بالا دست طبقوں اور اداروں کا ذکر کیا ہے جو عام آدمی کا استحصال کرتے ہیں اور اس کی بھر پور صلاحیت بھی رکھتے ہیں۔ ناول میں آئین کے ساتھ کھلواڑ سے لے کر مارشل لا کی چیرہ دستیوں کا بھر پور تذکرہ ملتا ہے۔ بھٹو کی پھانسی کے پس منظر اور ضیائی دور کے مارشل لا کی ضیا الحقوں کی تفصیل بھی موجود ہے۔
ناول کا کردار اروڑہ سماج کے عام آدمی کا نمائندہ ہے۔ مسجد سے کوزہ چوری کرنے کے بعد جو سلوک اس سے روا رکھا جاتا ہے اُس سے ڈر، خوف سراسیمگی اور دہشت زندگی ساری عمر اس کے اندر سانس لیتی رہتی ہے۔ سکول، کالج اور پھر بیرونِ ملک نوکری کرتے ہوئے لگتا ہے یہ بلائیں اس کے ساتھ جو ان ہو رہی ہیں۔ اس کردار کی پرداخت کے ساتھ ساتھ اس ملک کی تاریخ بھی رواں دواں نظر آتی ہے۔
اُس کی دوست سونیا کے ساتھ مکالمہ اصل میں مشرق اور مغرب کے درمیان ایک ڈائیلاگ ہے جس کی اپنی اہمیت ہے۔ بیرون ملک نوکری کرتے ہوئے اسے احساس ہوتا ہے کہ اس کی زندگی رائیگاں گئی ہے۔ یہ بے مقصدیت اور رائیگانی انفرادی نہیں قومی بے مقصدیت اور رائیگانی ہے۔ یہ ناول آج کا ناول لگتا ہے۔
جناب مشتاق عادل کو مبارک باد کہ انھوں نے ایک خوب صورت ناول کا خوب صورت انداز میں ترجمہ کیا ہے۔ ترجمہ عام فہم ، رواں اور سہل ہے۔ مجھے امید ہے مشتاق عادل صاحب تراجم کا یہ سلسلہ جاری رکھیں گے۔
حمید رازی، لاہور
Pages 288
ISBN 978-627-30-0198-2