Skip to product information
1 of 1

طائر جہاں گرد | جمیل احمد | سید محمد زیشان | The Wandering Falcon

طائر جہاں گرد | جمیل احمد | سید محمد زیشان | The Wandering Falcon

Regular price Rs.450.00 PKR
Regular price Rs.600.00 PKR Sale price Rs.450.00 PKR
Sale Sold out
Shipping calculated at checkout.

The Wandering Falcon Book by Jamil Ahmad

طائر جہاں گرد  |  جمیل احمد | سید محمد زیشان | The Wandering Falcon

جمیل احمد یکم جون 1931 کو پنجاب میں پیدا ہوئے۔ ادبی خدمات کی وجہ سے ستارہ امتیاز " سے نوازہ گیا۔ ابتدائی تعلیم لاہور میں حاصل کی اور پھر 1954 میں سول سروس میں شامل ہو گئے۔ 12 جولائی 2014 کو اسلام آباد میں وفات پاگئے۔ جمیل احمد نے بلوچستان اور قبائلی علاقہ جات میں بہت عرصہ بیورو کریٹ کی حیثیت سے خدمات سر انجام دی ہیں۔ جب 1979 میں سویت یونین نے افغانستان پر حملہ کیا تو اس نازک دور سے پہلے اور اس دوران بھی آپ کو کابل میں پاکستان ایمبیسی میں وزیر کی حیثیت سے تعینات کیا گیا۔ بطور سرکاری افسر کے ان کا آخری کام بلوچستان کے چیف سیکرٹری کی حیثیت سے تھا۔
"The Wandering Falcon"
جمیل احمد کا پہلا ناول ہے۔ اس کی اشاعت 2011 میں ہوئی۔ یہ تحریر بلوچستان، وزیرستان اور سوات کے قبائلی لوگوں کی خانہ بدوش زندگی کے بارے میں ان کے ذاتی تجربات پر مشتمل ہے۔ بلا شبہ یہ ثقافتی اور تاریخی اعتبار سے بے نظیر کام ہے۔
اس ناول میں جمیل احمد نے بلوچوں کی زندگی پر مبنی کہانی میں خانہ بدوشوں کی قدیم تہذیب و ثقافت اور رسم و رواج کی عکاسی کی ہے۔ بلوچوں کی ذاتی زندگی پر مبنی 9 کہانیوں کی آمیزش سے بنی ہے۔ ان کہانیوں کا مرکز پرانی روایتی محبت ہے۔ گل بی بی ایک مقامی دوڑ میں حصہ لینے والے ایک شخص سے ٹکڑا جاتی ہے اور اس کی محبت میں گرفتار ہو کر اس کے ساتھ گھر سے فرار ہو جاتی ہے۔ قبائلی رواج کے مطابق گل بی بی کا یہ قدم بہت بڑا گناہ سمجھا جاتا ہے۔ اور اس کی زندگی کے لیے خطرہ بن جاتا ہے۔ گل بی بی اور اس کا عاشق جگہ جگہ چھپتے پھرتے ہیں۔ مقامی لوگ ان کی تلاش میں سر کردہ رہتے ہیں اور آخر کار انہیں ڈھونڈ کر قتل کر دیتے ہیں۔ ان کا ایک بیٹا جس کا نام ”Tor Baz“ (طور باز) ہے۔ اس کے علاوہ اور بھی کچھ کہانیاں ہیں جیسے "کا فرملا کی کہانی " جس میں کردار آوارہ گردی کرتے نظر آتا ہے اور وہ مشکوک کردار کا حامل انسان عجیب و غریب کاموں میں مصروف رہتا ہے۔

”Pawindah“
اس کے علاوہ کچھ عورتوں کی کہانیاں ہیں۔ خاص طور پر کی کہانی جو بہت زیادہ مزاح کا پہلو رکھتی ہے۔ کہانیوں کے اندر کہانیاں اس طرح پیوست ہیں کہ وہ اس کے بیانیہ کو مزید وسعت عطا کرتی ہیں۔ ان تمام کہانیوں میں جمیل احمد بلوچی قبائل کی چند مختلف صفات بیان کرتے ہیں۔ مثلاً سر براہ سے وفاداری، روایتی جرات مندی، مہمان نوازی، عزت نفس اور ان کی خانہ بدوش طر ز زندگی وغیرہ۔

پورے بیانیہ میں جمیل احمد اس ناول کے ہیرو کو بے نام حیثیت سے سامنے لاتے ہیں جب کہ اس کا بیٹا طور باز بھی ثانوی یا ذیلی ہیرو کے طور پر نظر آتا ہے وہ پورے بیانیے میں موجود رہتا ہے۔ اور غائب نہیں ہوتا۔ اس کے کردار کی مختلف پر تیں آہستہ آہستہ کھلتی ہیں۔
شناخت کا بحران : اپنے والدین کی وفات کے بعد طور باز انتہائی بے یارو مددگار زندگی گزارتا ہے۔ کوئی اسے اپنانے کے لیے تیار نہیں۔ صرف اس پر اپنا حق جتانے کے Mullah Barrer, Ghunjcha Gul لیے کچھ کر دار سامنے آتے ہیں جن میں Bhitanis اور اسی طرح کے کچھ کردار سامنے آتے ہیں زندگی اس کے ساتھ جو گھناؤنہ کھیل کھیلتی ہے تو بڑا ہو وہ بھی اسی طور سامنے آتا ہے۔ وہ اپنی شناخت بدلتا رہتا ہے۔ کبھی رہنما تو کبھی جاسوس، کبھی اطلاع کنندہ تو کبھی گھڑ سوار ۔

محبت اور عزت کہانی
The sin of the mother“ میں لکھاری روایتی اور قبائلی رسم و رواج کو بیان کرتے ہوئے واضح کرتا ہے کہ محبت کرنا ایک بغاوت کے زمرے میں آتا ہے اور یہ گناہ گل بی بی سے سرزرد ہو جاتا ہے۔ قبائلی لوگ انہیں تلاش کر کے قتل کر دیتے ہیں ان کا بیٹا طور باز ان تلخیوں کو برداشت کرنے کے لیے اکیلا رہ جاتا ہے۔


قبیلہ اور ریاست :
اس میں جمیل احمد نے کوشش کی ہے کہ قبائلی زندگی اور ریاست کے قوانین کے تصادم کو سامنے لایا جائے اور یہ بلوچی لوگوں کی زندگی اور ان کی جغرافیائی حد بندی کی صورت میں سامنے آیا ہے۔ مثال کے طور پر قبائلی لوگوں کا گروہ جو ایک جگہ سے دوسری جگہ ہجرت کرتا آیا ہے اس کو

"The Kharot“
کہتے ہیں وہ خانہ بدوشی زندگی کسی صورت ترک کرنا نہیں چاہتے اس لیے وہ حکومتی پالیسیوں کو اپنی اساطیری روایات کے خلاف خیال کرتے ہیں۔ ان کے خیال میں اگر انہوں نے اپنی اس زندگی سے رخ موڑا تو ان کا وجود ختم ہو جائے گا۔

”The Wandering Falcon“
اگر چہ جمیل احمد کے ابتدائی تصنیف ہے تاہم اسے بہت زیادہ کامیابی حاصل ہوئی ان کا اسلوب سادہ لیکن متاثر کن ہے۔
وہ اسلوبی پختگی کے حامل ہیں اور چیزوں کو بالکل اسی طرح سامنے لاتے ہیں جیسے وہ ہوتی ہیں۔

 

Customer Reviews

Be the first to write a review
0%
(0)
0%
(0)
0%
(0)
0%
(0)
0%
(0)
View full details