انقلابِ مسلسل | نتائج اور تناظر | لیون ٹراٹسکی | Inqalab Musalsal | Nataij o Amkanat
انقلابِ مسلسل | نتائج اور تناظر | لیون ٹراٹسکی | Inqalab Musalsal | Nataij o Amkanat
ٹراٹسکی کی تاریخ ساز کتاب ”انقلاب مسلسل“ کے اردو ترجمے کا تعارف
لیون ٹراٹسکی کی کتب ”انقلابِ مسلسل“ اور ”نتائج اور تناظر“ کی پہلی دفعہ اردو زبان میں اشاعت بلاشبہ ایک غیر معمولی کامیابی اور انقلابی تحریک کے لیے ایک حقیقی سنگ میل ہے۔ بلاشبہ ان کا شمار مارکسزم کی کلاسیکی تصانیف میں ہوتا ہے جو آج بھی نہ صرف پاکستان بلکہ پورے برصغیر کے لیے غیر معمولی اہمیت کی حامل ہیں۔ تاریخ کی غیر لچکدار مرحلہ واریت پر مبنی میکانکی نقطہ نظر کو رد کرنے والے ٹراٹسکی کے نظریہ انقلاب مسلسل کا لازمی جوہر ہمیں پہلے سے ہی مارکس اور اینگلز کی تحریروں میں ملتا ہے۔
مارچ 1850ء میں لکھے گئے ”مرکزی کمیٹی کے کمیونسٹ لیگ سے خطاب“ میں مارکس اور اینگلز نے 1848ء کے انقلاب، جو ان کے خیال میں پرولتاری انقلاب کا پیش خیمہ تھا، کے دوران جرمن لبرل بورژوازی کے ”غدارانہ کردار“ کے متعلق لکھا تھا۔ اگرچہ ان کا تناظر درست ثابت نہیں ہوا لیکن مصنفین نے محنت کش طبقے کے آزادانہ کردار اور انقلاب کو مسلسل بنانے کی ضرورت پر زور دیا۔
”جہاں جمہوریت پسند پیٹی بورژوازی زیادہ سے زیادہ مندرجہ بالا حاصلات کے ساتھ انقلاب کا جلد از جلد خاتمہ چاہتی ہے، ہمارا مفاد اور فریضہ یہ ہے کہ ہم انقلاب کو مسلسل بنائے رکھیں تا وقتیکہ ملکیت رکھنے والے طبقات کی بالا دست حیثیت کا کم و بیش خاتمہ ہو جائے، پرولتاریہ ریاستی طاقت پر قبضہ کر لے اور پرولتاریہ کا اتحاد صرف کسی ایک ملک میں نہیں بلکہ دنیا کے تمام غالب ممالک میں اتنا آگے بڑھ جائے کہ ان ممالک میں محنت کشوں کے مابین مسابقت کا خاتمہ ہو جائے اور کم از کم اہم ترین پیداواری قوتیں پرولتاریہ کے ہاتھوں میں مرتکز ہو جائیں۔ ہمارا مطمع نظر نجی ملکیت کا ایک ہاتھ سے دوسرے ہاتھ میں جانا نہیں بلکہ اس کا مکمل خاتمہ ہے۔ ہمارا مقصد طبقاتی تضادات کو نرم کرنا نہیں بلکہ طبقات کا خاتمہ کرنا، موجودہ سماج کو بہتر بنانا نہیں بلکہ ایک نئے سماج کی بنیاد رکھنا ہے۔“
وہ بات کو سمیٹتے ہوئے لکھتے ہیں:
”لیکن انہیں (پرولتاریہ کو) خود اپنے طبقاتی مفادات کو واضح طور پر پہچانتے ہوئے، جلد از جلد ایک آزادانہ پارٹی کی شکل میں ڈھلتے ہوئے اور ایک لمحے کے لیے بھی جمہوریت پسند بورژوازی کی منافقانہ لفاظیوں کے جھانسے میں آ کر پرولتاریہ کی آزادانہ پارٹی کی تعمیر کے کام کو پس پشت ڈالنے سے پرہیز کرتے ہوئے، اپنی حتمی فتح کو یقینی بنانا ہو گا۔ ان کا جنگی نعرہ ہونا چاہیے: ایک مسلسل انقلاب۔“ (مارکس اور اینگلز، مجموعہ تصانیف، جلد نمبر 10، صفحہ نمبر 281,287)
ٹراٹسکی نے ان نظریات کو مستعار لیتے ہوئے 1904-05ء کے عرصے میں نظریہ انقلاب مسلسل کو پروان چڑھایا جب انقلاب روس کے تناظر کے متعلق بحث مباحثہ پورے جوبن پر تھا۔ درحقیقت جب 1905ء کے انقلاب کی شکست کے بعد ٹراٹسکی کو زار شاہی کی جانب سے گرفتار کر لیا گیا تو اس نے قید کے دوران ”نتائج اور تناظر“ لکھی۔
اس وقت کی ان بحثوں میں تین مؤقف سامنے آ رہے تھے۔ تینوں اس بات پر متفق تھے کہ روس کا انقلاب، انگلستان اور فرانس کے بورژوا انقلابات کی طرح ایک بورژوا انقلاب ہے۔ انقلاب کے بنیادی فرائض میں مطلق العنانی کا خاتمہ، ایک بورژوا جمہوریہ کا قیام، زرعی سوال کا حل اور مظلوم قومیتوں کو حق خود ارادیت دینا شامل تھے۔ اور اس سب کے نتیجے میں سرمایہ داری کے فروغ اور ایک جدید معیشت کے قیام کی بنیاد پڑے گی۔ اختلاف اس بات پر ابھرا کہ کون سا طبقہ انقلاب کی قیادت کرے گا۔
منشویکوں نے یہ میکانکی نقطہ نظر اپنایا کہ چونکہ یہ ایک بورژوا انقلاب ہے، لہٰذا اس کی قیادت بھی بورژوازی ہی کرے گی، جیسا کہ ماضی میں ہوا ہے۔ ان کے مطابق نو خیز محنت کش طبقے کو بورژوازی کی قیادت کے تابع ہو جانا چاہیے۔ صرف اسی طرح ہی سرمایہ داری کے بھرپور فروغ کے بعد، اگلے مرحلے میں، محنت کش طبقہ سوشلزم کا نعرہ لگانے کے قابل ہو سکتا ہے۔ یقینا ابھی کے لیے بورژوازی کی حمایت کرتے ہوئے انہیں سوشلسٹ نظریات کو بھول جانا چاہیے کہ کہیں ان کے بورژوا اتحادی اس سے ناراض نہ ہو جائیں۔
منشویکوں کے نزدیک ہر سماج کو ایک لگے بندھے ضابطے کے تحت ان طے شدہ مراحل سے گزرنا تھا۔ مارکسزم کی کسی ”کلاسیکی“ تشریح کی بجائے یہ نقطہ نظر مارکس اور اینگلز کی جانب سے لبرل بورژوازی کے غدارانہ کردار کے متعلق دی گئی وارننگ اور نصیحت کے بالکل برعکس تھا۔
لینن اس منشویک مؤقف کا شدید مخالف تھا۔ اس نے اپنا نقطہ نظر 1905ء کے موسم گرما میں لکھی جانے والی ”جمہوری انقلاب میں سوشل ڈیموکریسی کے دو طریقہ کار“ میں نہایت وضاحت کے ساتھ بیان کیا۔ مارکس اور اینگلز کی طرح لینن نے بھی بورژوازی پر خوفناک حملے کیے جو اب انقلابی کردار ادا کرنے کے قابل نہیں رہی تھی۔
”مگر ہم بطور مارکس وادی اپنے نظریات اور لبرلوں، زیمستو کے اراکین اور اوسووبوزڈینے کے حامیوں، کے روز مرہ مشاہدے کے کارن جانتے ہیں کہ بورژوازی انقلاب کی حمایت میں متزلزل، خود غرض اور بزدل ہے۔ جیسے ہی بورژوازی کے تنگ نظر، خود غرض مفادات پورے ہوں گے ویسے ہی وہ بحیثیت مجموعی مستقل مزاج جمہوریت پسندی سے ’پیچھے‘ ہٹتے ہوئے (اور وہ پہلے ہی پیچھے ہٹ رہی ہے!) ناگزیر طور پر رد انقلاب اور مطلق العنانی کا رخ کرے گی اور انقلاب و عوام کے مخالف کھڑی ہو جائے گی۔“ (لینن، مجموعہ تصانیف، جلد نمبر 9، صفحہ نمبر 97-98)