اسٹالین | Astalyan
اسٹالین | Astalyan
Regular price
Rs.200.00 PKR
Regular price
Rs.400.00 PKR
Sale price
Rs.200.00 PKR
Unit price
/
per
سوانح حیات
اسٹالین
اسٹالین ایک مخالف کی نظر میں
مشتاق علی شان
کامریڈ اسٹالین کو موضوعِ بحث بنے کوئی ایک صدی کا عرصہ ہونے کو ہے ۔عظیم اکتوبر انقلاب کی سرفروشانہ جدوجہد سے لے کر انقلاب کے استقلال ، انقلاب کے اندرونی وبیرونی دشمنوں کا قلع قمع کرنے ، دوسری عالمگیر جنگ میں فاشزم کو تہہ تیغ کرنے ،سوویت یونین کو ایک عظیم صنعتی اشتراکی ملک بنانے ،مشرقی یورپ سے لے کر چین ، کوریا ، ویتنام وغیرہ میں قومی آزادی اور اشتراکی تحریکوں کی بے غرض ا مداد کے حوالے تک سے دنیا بھر کے انقلابیوں سے اسٹالین نے لینن ازم کے عملی نمائندے اور عالمی پرولتاریہ کے جانباز استاد کے طور پر بے پناہ خراجِ تحسین وتائید سمیٹی ہے۔ دوسری جانب انقلاب کے جامے میں مستور سوویت یونین کے ردِ انقلابی گروہوں ،لیون ٹراٹسکی سے لے کر خروشچیف اور گوربا چوف تک، عالمی سامراج اور اس کے نمائندوں ،دنیا بھر کے محنت کشوں کے نفرت انگیز طبقاتی دشمنوں ،جاپانی، اطالوی اور جرمن فاشزم سے لے کر رابرٹ کونکیسٹ اور ہرسٹ کی نام نہاد مغربی ’’صحافی سلطنت‘‘ سے سولزے نٹسن جیسے فاشسٹوں اور برسوں اس مہلک پروپیگنڈے کی خوراکوں پر پلنے والوں کے اتہامات اور ہرزہ سرائی تک کامریڈ اسٹالین کے متعلق بہت کچھ کہا ،لکھا گیا اور یہ سلسلہ ابھی جاری ہے ۔ یہ اور بات کہ تاریخ مسلسل اسے جھوٹا ثابت کرتے ہوئے اس گرد کو صاف کر رہی ہے جس کے ذریعے اسٹالین کی انقلابی شخصیت ، اس کے کردار اور عظیم مساعی کو ڈھانپنے کی کوششیں کی گئیں۔اس کی ایک تازہ مثال 1940میں اسٹالین کے ہاتھوں پولینڈ میں کیے جانے والے’’ قتل عام کے ’’ثبوت‘‘ ہیں جو گوربا چوف اور بورس یلسن کی طرف سے انسانی حقوق کی یورپی عدالت کو کمیونزم کے خلاف مقدمے میں فراہم کیے گئے تھے ،گوربا چوف سے لے کر یلسن اور پیوٹن تک سب ہی اسٹالین کے ہاتھوں ’’پولینڈ کے قتل عام ‘‘ پر پچھتاوے کا اظہار کرتے رہے ہیں لیکن حال ہی میں یورپی عدالت نے اسٹالین کے خلاف فراہم کردہ ان سرکاری دستاویزات کو جعلی قرار دیتے ہوئے جھوٹ کے اس پلندے کا پول کھول دیاہے۔ (1)
آج اگردنیا بھر کی طاقتور سامراجی پروپیگنڈا مشینوں کے ذریعے کامریڈ اسٹالین اور سوویت یونین کے خلاف مشتہر کیا گیا سارا مواد نقش برآب ثابت ہو رہا ہے تو دوسری جانب خود اسٹالین کے خلاف اس کے سوویت مخالفین نے اپنی تمام تر نفرت اور تعصب کے باوجود جو کچھ تحریر کیا ،اس کی چھان پھٹک سے بھی اس کی شخصیت کے ایسے پہلو سامنے آتے ہیں جو بجائے خود دشمن کی طرف سے اس کی عظمت کا اعتراف ہے۔اس سلسلے میں ایک نمایاں نام آندرے گرومیکو کا ہے ۔
آندرے گرومیکو نوجوانی کے زمانے میں ینگ کمیونسٹ لیگ (کمسومول)میں شامل ہوا ۔ 1936میں اکیڈمی سائنسز کے انسٹیٹیوٹ آف اکنامکس میں ریسرچ اسسٹنٹ اور ماسکو میں انسٹیٹیوٹ آف سول انجینئرنگ میں سیاسی معیشت کااستاد رہنے والے آندرے گرومیکو نے بعد ازاں امریکا اور برطانیہ میں بطور سفیر تعیناتی ،قوامِ متحدہ کے قیام کی دستاویزات پر سوویت یونین کی جانب سے دستخط کنندہ ،اقوام، متحدہ کی سیکورٹی کونسل میں سوویت یونین کے نمائندے، سوویت یونین کے نائب وزیر خارجہ سے ، وزیر خارجہ تک کا سفر طے کیا ۔اسٹالین کے بعد خروشچیف سے لے کر گوربا چوف تک کے سوویت یونین کے لیے اس نے طویل عرصے تک سفارت کاری کی۔ آندرے گرومیکو پارٹی کی مرکزی کمیٹی اور پولٹ بیورو کا رکن رہا اور 1985سے1988تک سوویت یونین کی سپریم سوویت کا چیئرمین یعنی سوویت یونین کا صدر رہا ۔آندرے گرومیکو وہ شخص تھا جس نے بریژنیف کی طرف سے گوربا چوف کی سینٹرل کمیٹی کے سیکریٹریٹ میں تعیناتی کی تجویز پراسے ’’بے لاگ، دیانتدار ، نہایت عمدہ تربیت یافتہ اور اصلی کمیونسٹ‘‘ قرار دیا تھا ۔مارچ 1985میں آندرے گرومیکو ہی تھا جس نے کمیونسٹ پارٹی کی مرکزی کمیٹی کے اجلاس میں گوربا چوف کو پارٹی کا جنرل سیکریٹری مقرر کرنے کی تجویز سامنے رکھی ،جسے متفقہ طور پر منظور کیا گیا ۔ آندرے گرومیکو اپنی وفات(1989)تک اس کی پروسترئیکا اور گلاس نات پالیسیوں کا پرجوش حامی رہا ۔
آندرے گرومیکو نے اپنی آپ بیتی 1989 میں Memoriesکے نام سے مکمل کی اور یہ 1989میں ہی اس وقت شایع ہوئی جب گوربا چوف کے سوویت یونین کے ساتھ ساتھ خود آندرے گرومیکو بھی دمِ واپسیں پر تھا ۔آندرے گرومیکو کی یہ آپ بیتی بالشویک انقلاب کے بعد سے لے کر سرد جنگ کے پچاس سال تک کا احاطہ کرتی ہے جس میں سوویت یونین کی پالیسیوں ، سوویت اور عالمی رہنماؤں، مختلف شخصیات کے ساتھ ملاقاتوں کا احوال درج ہے۔ اپنی یاداشتوں میں گرومیکو نے اسٹالین پر اسی طرح کے اتہامات دہرائے ہیں جو اس کے روسی اور مغربی مخالفین کا وتیرہ رہا ہے ۔اسٹالین کے متعلق گرومیکو کا بیانیہ ’’ مہیب خود غرضیوں کی حامل ریاستی مشینری‘‘( جس کا گرومیکو خود برسوں حصہ رہا)،’’اسٹالنزم کا اجگر‘‘( جو بہرحال نہ خروشچیف اور نہ خود گرومیکو جیسے مخالفین کو نگل سکا )،’’ چیرہ دستیوں اورجرائم کے انبار‘‘( جن میں سے کوئی بھی آج تک ثابت نہ کیے جا سکے)جیسے الفاظ پر مشتمل رہا۔یہاں یہ امر بھی قابلِ غور ہے کہ جس وقت گرومیکو اپنی آپ بیتی قلم بند کر رہا تھا اسی زمانے میں اکتوبر انقلاب کی 70ویں سالگرہ کے موقع پر تقریر کرتے ہوئے گوربا چوف اسٹالین کے خلاف اپنی نفرت اور تعصب کا اظہار کر چکا تھا جسے گرومیکو نے ’’سوویت عوام کی سوچ اور محسوسات کا غماز ‘‘ قرار دیا تھا ۔البتہ گوربا چوف کی اس تقریر اورگرومیکو کی تائید کے ٹھیک30سال بعد2017میں جب اسٹالین کی وفات کو پون صدی کا عرصہ ہونے کو تھا ، روس میں دس تاریخی شخصیت کے حوالے سے ہونے والے سروے میں اسٹالین روسی عوام کی پسندیدہ ترین شخصیت قرار پایا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ ان دس شخصیات میں گوربا چوف کا نام بھی شامل تھا جسے سب سے کم روسی عوام نے پسند کیا ۔(2)
قصہ مختصر کہ آندرے گرمیکو کو اپنی کتاب میں یہ اعتراف کرنا پڑا کہ ’’اسٹالین کے متعلق اپنے تاثرات پہلے بیان کر دینے کا فیصلہ میں نے اولاََ اس لیے کیا کیوں کہ میں اس کا ہمعصر تھا اور میں نے جنگ کے دوران اور جنگ کے بعد کئی طرح کے حالات میں اس کا مشاہدہ کیا اور ثانیاََ اس لیے کہ لوگ بڑے جائز طور پر یہ سوال کرتے ہیں کہ اس کے متعلق کیا رویہ اپنایا جائے ۔کیوں کہ اس کی ذات کئی ایک ناقابل فہم اوصاف کا مجموعہ تھی۔ اسٹالین کی ذات اگر آنے والے کئی صدیوں تک نہیں تو کئی عشروں تک ضرور وجہ تنازع بنی رہے گی ۔اپنی اعلیٰ صلاحیتوں کے بل بوتے پر اس نے لینن کی وفات کے بعد بڑی کامیابی سے کمیونسٹ پارٹی کاشیرازہ سمیٹے رکھا اور تیس سال تک ایک بڑی قوت کے سربراہ کی حیثیت سے اہم ذمہ داریوں کا سامنا کرتے ہوئے فیصلہ کن کردار ادا کیا۔سرخ فوج کے سپاہی اسے سراہتے تھے اور مزاحمتی جنگجو اس کا نام ہونٹوں پر لیے اپنی جانیں قربان کرتے تھے۔
تاہم محض اس کی مثبت خصوصیات پر نظر کر کے رہ جانا غلط ہو گا کیوں کہ وہ اپنی ذات میں المناک تضادات کا حامل تھا ۔ ایک طرف وہ نہایت توانا ذہانت کا مالک تھا ، انقلابیوں کا اولوالعزم رہنما تھا اور اپنے جنگی اتحادیوں کے ساتھ مشترکہ افہام وتفہیم حاصل کرنے میں بھی کامیاب رہا ۔ دوسری جانب وہ ایک سخت گیر آدمی تھا جو اپنے اہداف کے حصول میں صرف ہونے والی انسانی جانوں کا شمار رکھنے کا قائل نہ تھا ۔اور جس نے مہیب خود غرضیوں کی حامل ریاستی مشینری تیار کی جس کی بدولت بے شمار بے قصور وبے خطا سوویت باشندوں کو موت کے گھاٹ اترنا پڑا ۔‘‘ (3)
جہاں تک سخت گیری کا تعلق ہے تو اسٹالین دنیا کی اس پہلی پرولتاری آمریت کا نمائندہ تھا جس کے وجود میں آتے ہی بیرونی تجاوز گروں، روس میں ذرائع پیداوار اور اس کی بنیاد پر حاصل مراعات سے محروم ہوجانے والے رجعتی طبقات اور ردِ انقلابی گروہوں نے اعلانیہ جنگوں کے ساتھ ساتھ ایسی سازشوں کے تانے بانے بنے تھے جس سے نمٹنے میں دو دہائیوں سے زیادہ عرصہ لگا لیکن پھر بھی ان کا مکمل انسداد نہ کیا جاسکا۔اسٹالین کی قیادت میں سوویت یونین کے کروڑوں محنت کار انسانوں کی طبقاتی جنگ میں نفرت انگیز طبقاتی دشمنوں کا جسمانی خاتمہ خود ان کی انقلاب مخالف جنگ اورمزاحمت میں پنہاں تھا۔اسٹالین کا اپنا ذاتی یا شخصی کوئی ہدف نہیں تھا نہ ہی اس کا کوئی بدترین دشمن اس پر ذاتی دولت کے انبار لگانے کے الزامات لگانے کی جسارت کر سکا ہے۔اسٹالین کتنی ’’شاندار زندگی ‘‘ گزارتا تھا اورکتنی ’’جائیداد‘‘ اور ’’دولت کے انبار‘‘ اپنے پسماندگان کے لیے چھوڑ گیا ؟ یہ بیان کرنے کے لیے جس ڈھٹائی کی ضرورت ہے وہ اسٹالین کے کسی مخالف کے حصے میں نہیں آئی ۔باقی جہاں تک آندرے گرومیکو نے ’’مہیب خود غرضیوں کی حامل ریاستی مشینری ‘‘ کی تیاری کا اتہام اسٹالین پر لگایا ہے اس کے دفاع میں اتنا کہنا ہی کافی ہے کہ خود آندرے گرومیکو اسی ’’ریاستی مشنری‘‘ کی پیداوار تھا جسے وہ ’’بے شمار سوویت باشندوں کی موت‘‘ کا ذمہ دار قرار دیتا رہا ۔سوویت یونین کے انہدام کے بعد اسٹالین عہد کے آرکائیوز سے لے کر گوربا چوف اور یلسن کے یورپی عدالتوں کو اسٹالین کے قتل عام کے پیش کردہ’’ دستاویزاتی ثبوت‘‘ ( جو جعلی ثابت ہوئے) اسٹالین کی بے گناہی کے سوا کچھ بھی نہ ثابت کر سکے۔ آندرے گرومیکو کی اپنی اخلاقی پستی اور موقع پرستی کا عالم یہ تھا کہ اسٹالین کے بعد خروشچیف، بریژنیف ،آندرے پوف، چرننکو اور گوربا چوف تک وہ ہر ایک کی صفِ اولیں میں بخوبی جگہ پاتا رہا۔موصوف یلسن اور پیوٹن کا سرمایہ دار روس دیکھنے تک زندہ نہیں رہا ورنہ ’’لینن،لینن‘‘سے ’’گوربی ،گوربی‘‘ اور ’’سوشلزم ،سوشلزم‘‘ سے ’’کمیونزم ،کمیونزم‘‘کی جگالی کے بعد بھلا کون سا امر مانع ہوتا جو اسے ’’روسی سرمایہ داری زندہ باد‘‘ اور ’’یلسن کی جے ‘‘ ،پیوٹن کی جے ‘‘ کہنے سے باز رکھتا ؟!!۔
بہرکیف آندرے گرومیکو نے اپنی کتاب Memoriesمیں اسٹالین پر الزامات لگانے میں کسی قسم کا تساہل نہیں برتا لیکن باوجود ایک مخالف کے اس نے اسٹالین کے متعلق جو کچھ تحریر کیا ہے، اس کے مطالعے سے اسٹالین کی شخصیت کے مزیدمثبت پہلو ہی سامنے آتے ہیں جس کی ایک عظیم انقلابی رہنما ہونے کے ناتے ان سے بجا طور پر توقع کی جا سکتی تھی ۔گرومیکو کے بقول ’’ پہلی نظر میں اسٹالین کی شخصیت کا کون سا حصہ سب سے نمایاں نظر آتا تھا ؟ ہر طرح کے حالات میں اس کے متعلق پہلا تاثر یہ ملتا تھا کہ یہ ایک سوچنے والا آدمی ہے ۔میں نے کبھی اسے زیرِ بحث موضوع سے ہٹی ہوئی بات کرتے نہیں سنا ۔اسے تمہیدات،طویل جملے اور لفاظی سے بھرپور تقاریر پسند نہ تھیں۔ اس کے باوجودوہ ایسے افراد سے صبروتحمل برتنے کے فن سے بھی واقف تھا جو تعلیم کی کمی کے باعث اپنے خیالات کو اچھے طریقے سے منظم نہیں کر پاتے ۔۔۔۔۔اسٹالین کی حرکات وسکنات ہمیشہ عجلت کے عنصر سے پاک ہوتی تھیں۔ میں نے کبھی اسے اپنی رفتار بڑھاتے ہوئے نہیں دیکھا ۔اور مجھے تو ایسا لگتا تھا کہ جب وہ کام کر رہا ہوتا تو وقت کی رفتار بھی دھیمی پڑ جاتی تھی ۔۔۔۔۔بولتے وقت اس کا لہجہ دھیما بلکہ کسی قدر گھٹا ہوا سا رہتا تھا ۔بلند آواز میں وہ کم ہی بات کرتا تھا۔اس کے باوجود جب وہ بولتا تو ہر طرف کامل سکوت چھا جاتا، خواہ وہاں کتنے ہی لوگ کیوں نہ موجود ہوں۔اس کی تقاریر کا اسلوب اس کی اپنی ایجاد تھا ۔اس کی سوچ جچے تلے اور غیر روایتی خیالات سے عبارت تھی۔‘‘ (4)
اسٹالین کی پُراعتماد شخصیت اور غضب کی یاداشت کے متعلق گرومیکو لکھتا ہے کہ ’’ کسی بھی قسم کے اجلاس ،بشمول بین الاقوامی کانفرنسوں میں شرکت کرتے ہوئے اسٹالین کے پاس
کوئی فائل یا کسی طرح کے کاغذات نظر نہیں آتے تھے ۔میں نے کبھی اس کے ہاتھ میں کوئی کاغذ یا قلم نہیں دیکھا اور نہ ہی کبھی اسے تحریری نوٹس لیتے دیکھنے کا اتفاق ہوا ۔۔۔۔۔بین
الاقوامی کانفرنسوں کے ہر اجلاس کے لیے وہ پوری طرح تیار ہو کر آتا تھا ۔اس کے ساتھ جانے والے وفد کو علم ہوتا تھا کہ وہ کس موضوع پر بات کرے گا ۔‘‘ (5)
ایک اور جگہ یالٹا کانفرنس کے حوالے سے گرومیکو اپنا مشاہدہ یوں بیان کرتا ہے کہ ’’ اس کانفرنس کا کوئی ایک بھی ایسا موقع مجھے یاد نہیں جب اسٹالین نے اپنے شرکاء کار کی کوئی بات درست طور پر سنی یا سمجھی نہ ہو ۔اس کی یاداشت کسی کمپیوٹر کی طرح کام کرتی تھی اور کوئی چیز اس کی زد میں آئے بغیر نہیں رہتی تھی ۔مجھے پہلے سے کہیں زیادہ شدت کے ساتھ احساس ہوا کہ یہ شخص غیر معمولی اوصاف کا حامل ہے۔۔۔۔وہ ہر رکن کو چہرے سے پہچانتا تھا ۔درحقیقت یہ اس کے لیے ایک اہم وجہ فخر تھی کہ وہ بہت سے افراد کو جانتا تھا، ان کے نام یاد رکھ سکتا تھا اور اکثر اسے یہ بھی یاد ہوتا تھا کہ وہ اس سے کہاں ملے تھے ۔اس کی یہ صلاحیت ہمیشہ دوسروں کو متاثر کرتی تھی ۔‘‘ (6)
جذباتیات سے عاری کمیونسٹ حقیقت پسندی پر دلالت کرتا اسٹالین کی شخصیت کا ایک اور پہلو اس کے مخالف آندرے گرومیکو کی زبانی ملاحظہ کیجیے’’ایک موقع پر جنگ ( دوسری عالمگیر جنگ) کے اختتامی ایام میں جب کسی اندھے کو بھی نظر آرہا تھا کہ فسطائیوں کی کہانی ختم ہو چکی ہے ، جرمنوں کی ہٹ دھرم مزاحمت موضوعِ بحث تھی ۔بہت سے لوگوں نے اس پر اپنے خیالات کا اظہار کیا ۔اسٹالین نے سب کی باتیں سنیں اور پھر گویا بحث کا اختتام کرتے ہوئے کہا ’’یہ سب سچ ہے، میں مانتا ہوں ۔لیکن پھر بھی ہمیں جرمنوں کی ایک خصوصیت کا اعتراف کرنا چاہیے ،اور اس خصوصیت کا اظہار انھوں نے ایک سے زیادہ جنگوں میں کیا ہے ،اور وہ ہے جرمن سپاہی کا عزم اور پختہ ارادہ۔‘‘
پھر اس (اسٹالین) نے اضافہ کیا ’’تاریخ سے معلوم ہوتا ہے کہ سب سے پُر عزم سپاہی روس کا ہوتا ہے۔اس کے بعد جرمنوں کا نمبر آتا ہے اور تیسرے نمبر پر.......بات ختم کرنے سے پہلے اس نے توقف کیا ۔......پولش سپاہی ،پولش سپاہی ،ہاں پولش ۔۔‘‘
اسٹالین کے تجزیے نے مجھ پر گہرا اثر مرتب کیا ۔اس وقت تک جرمن فوج تقریباََ تباہ ہو چکی تھی۔توقع کی جا سکتی تھی کہ مفتوحوں کو لوٹنے، ان کی آبرو ریزی کرنے اور انھیں سولیوں پر چڑھانے والی اس فوج کے متعلق وہ درشت ترین الفاظ میں بات کرے گا لیکن اسٹالین نے جرمن فوجی کو تاریخ کے غیر جذباتی سیاق وسباق میں فٹ کر دیا تھا ۔‘‘(7)
دوسری عالمگیر جنگ کے موقع پر اسٹالین کے عزم اور حوصلے کو گرومیکو نے یوں بیان کیا ہے کہ ’’ اسٹالین ان چند رہنماؤ ں میں سے ایک تھا جو کبھی محاذکی بری خبروں کو حقائق کا چہرہ دھندلانے یا جماعت ،عوام اور اپنی مسلح افواج پر اپنا اعتماد متزلزل کرنے کی اجازت نہیں دیتے۔تاہم بعد ازاں ظاہر ہوا کہ جنگ کے بے پناہ دباؤ اور بے حساب مشکلات نے اسٹالین کی صحت سے بھرپور خراج وصول کیا ہے اور اس کے باوجود اگر وہ فتح کا پرچم لہراتا دیکھنے کے لیے زندہ رہا تو اس پر صرف حیران ہی ہوا جا سکتا ہے۔‘‘ (
اسٹالین دشمنی میں اس کے بہت سے روسی اور مغربی مخالفین نے جہاں اسٹالین پر تنقید کا کوئی پہلو ہاتھ سے نہ جانے دیا اور اگر کہیں یہ پہلو نہ بھی ملا تو اسے از خود تراش لیا ،وہاں باوجود اس کے کہ اسٹالین نے 14ضخیم جلدوں کے صورت اپنا نظریاتی کام چھوڑا ہے ،پراودا جیسے اخبار کی ادارت سے لے کر بالشویک پریس کی ساری ذمہ داریوں سے عہدہ برآہوا ،اسے علم وادب سے ’’تہی‘‘ قرار دیا گیا ۔لیکن اسٹالین کے فنونِ لطیفہ، ادب اور تاریخ کے مطالعے کا اعتراف اس کے اسی مخالف آندرے گرومیکو نے یوں کیا ہے کہ ’’لوگ اکثر فنونِ لطیفہ اور ادب کے متعلق اس(اسٹالین) کے رویے کے بارے میں سوال کرتے ہیں اور میرا اپنا تاثر یہ ہے کہ اسے موسیقی سے شغف تھا ۔ وہ کریملن میں منعقد ہونے والے کنسرٹس سے لطف اندوز ہوا کرتا ، خصوصاََ جاندار آوازکے مالک گلوکاروں کی نغمہ سرائی سے، خواہ وہ مرد ہوں یا خواتین ،اور ان کے مظاہرہ فن پر وہ جوش وخروش سے تالیاں بجایا کرتا تھا ۔میں نے اپنی آنکھوں سے پاٹسڈیم کانفرنس کے دوران اسے وائلن نواز بیرینوف اور پیانونواز گلیل کو چومتے ہوئے دیکھا ہے جنھوں نے سرکاری عشائیے کے بعد اپنے کمال فن کا مظاہرہ کیا تھا اور مشہور روسی طائفے بولشوئی کے آئیوان کوزلوفسکی جیسے فنکاروں کی کاوشیں بھی اس کے دل کو چھو لیا کرتی تھیں۔
جہاں تک اس کے ادبی ذوق کا سوال ہے تو یہ میں بتا سکتا ہوں کہ وہ پڑھتا بہت تھا ۔اس کا اظہار اس کی تقریروں سے ہوتا تھا ۔اسے روس کے کلاسیکی ادب سے گہری آشنائی تھی خصوصاََ گوگول اور سالٹی کوف شچیڈرن کی تخلیقات سے۔اس کے علاوہ میرے علم کے مطابق اس نے شیکسپیئر، ہائنا، بالزاک ،ہیوگو،گے دی موپاساں (جسے وہ خصوصی طور پر پسند کرتا تھا ) اور بہت سے دیگر مغربی یورپی ادبا کو بھی پڑھا تھا ۔یہ بھی پتا چلتا ہے کہ اس نے تاریخ کا گہرا مطالعہ کیا ہے ،کیوں کہ وہ اکثر ایسی مثالیں دہرایا کرتا تھا جوصرف تاریخی ماخذات سے ہی مل سکتی ہیں ۔‘‘ (9)
اسٹالین کے ’’کرم فرماؤں‘‘ نے اس کے متعلق بے سروپا قصے اور اتہامات کا جو طوفان اٹھایا ہے اس میں اسٹالین کا اعلیٰ انسانی رویہ اور طبعیت کی شائستگی کو گم کر دیا گیا ہے۔ اس کے بارے میں یوں تاثر پیش کیا جاتا ہے جیسے وہ بات بات پر شعلے اگلتا ہوا کوئی جنونی انسان ہو لیکن اس کا رد بھی اسٹالین کا یہ مخالف غیر شعوری طور پراپنی کتاب میں یوں کرتا ہے’’ اس کے متعلق کیا جانے والا یہ تبصرہ بالکل درست ہے کہ اپنے رویے کے اعتبار سے اسٹالین کبھی غلط نہیں ہوتا تھا ۔وہ کبھی کسی کے ساتھ گہری آشنائی کا اظہار کرنے یا پیٹھ پر تھپکیاں دینے کا عادی نہ تھا جسے بعض اوقات لوگ اچھے اطوار کی علامت سمجھ بیٹھتے ہیں ۔ غصے کے عالم میں بھی ،اور میں نے اسے اس عالم میں بھی دیکھا ہے ، وہ کبھی معین حد سے تجاوز نہیں کرتا تھا اور اس کے منہ سے مغلظات کم ہی برآمد ہوتی تھیں۔‘‘ (10)
گرومیکو کے بقول ’’ اسٹالین کو بذلہ سنج لوگ پسند تھے البتہ وہ خود اس ہتھیار کو خاصی کفایت شعاری سے استعمال کرتا تھا ۔ میں نے کبھی کسی کے منہ سے ،اس کی زندگی میں یا اس کے انتقال کے بعد یہ نہیں سنا کہ اسٹالین نے کبھی اپنی بذلہ سنجی کا غلط استعمال کیا ہوا۔‘‘(11)
دنیا جانتی ہے کہ انسانیت کے خلاف اب تک استعمال ہونے والے ہلاکت خیز ہتھیاروں میں سب سے مہیب ہتھیار ایٹم بم ہے جو سب سے پہلے امریکا نے بنایا، دوسری عالمگیر جنگ میں سوویت یونین کی فتح کو دھندلا کرنے کے لیے اسے جاپانی عوام کے خلاف استعمال کیا اور پھر اسے بلیک میلنگ کے ایک بڑے حربے کے طور پر برتا ۔ یہ امریکی صدر ٹرومین ہی تھا ( جس کے بارے میں اسٹالین نے کہا تھا کہ ’’یہ سرے سے انصاف کے مفہوم سے ہی واقف نہیں۔‘‘)جو جرمنی کی شکست کے بعد ہونے والی پاٹسڈیم کانفرنس کوایٹم بم کی خفیہ تیاری تک التوا ء میں ڈالتا رہا۔ اس کا اعتراف امریکی کے سیکریٹری برائے جنگ سٹمسن نے اپنی یاداشتوں میں یوں کیا کہ ’’ واشنگٹن کے نزدیک جنگ کے بعد یورپی اور دیگر مسائل کو اس وقت تک مؤخر کرنا بنیادی اہمیت کا حامل تھا جب تک کہ امریکا کے ہاتھ میں جوہری ہتھیار کی ترپ چال نہ آجائے ۔‘‘(12)
خفیہ ایٹمی تجربے کے بعد 16جولائی1945کو ہونے والی کانفرنس کے اختتام کے بعد جب اسٹالین رخصت ہونے لگا تو ٹرومین نے اسے بتایا کہ امریکا نے ایٹم بم تیار کر لیا ہے۔ گرومیکو لکھتا ہے کہ ’’ اسٹالین نے یہ خبر انتہائی اطمینان سے کسی جذبے کا اظہار کیے بغیر سنی ۔اس کا ردِ عمل یقیناََ ٹرومین کے لیے مایوس کن تھا ۔‘‘(13)اس اجلاس کے بعد پاٹسڈیم میں ہی اسٹالین کی رہائش گاہ پر ہونے والے اجلاس میں اسٹالین کے علاوہ ، مولوٹوف ، گسیف اور گرومیکو شامل ہوئے ۔ اس اجلاس میں ہونے والی گفتگو اور یہ ساری صورتحال واضح کرتی ہے کہ اسٹالین ہتھیاروں کی اس دوڑ کے خلاف تھا اور وہ پہلا شخص تھا جس نے سب سے پہلے یہ خیال پیش کیا کہ جوہری توانائی کا استعمال اور اس کی اجازت صرف پُر امن مقاصد کے لیے ہونی چاہیے ۔
اس حوالے سے گرومیکو لکھتا ہے کہ ’’ اسٹالین نے اس کے بعد وہ سوال اٹھایا جو اس اجلاس کا مرکزی نکتہ ثابت ہوا ۔ ‘‘ اسٹالین نے کہا کہ ’’ ہمارے اتحادیوں نے ہمیں بتایا ہے کہ امریکا کے پاس ایک نیا ہتھیار آ گیا ہے ۔ ایٹم بم۔ ٹرومین کی طرف سے یہ اطلاع ملتے ہی کہ انھوں نے اسے کامیابی سے ٹیسٹ کر لیا ہے، میں نے اپنے ماہر طبعیات کرچاٹوف سے بات کی ۔یقیناََ ہمارا اپنا بم بھی جلد تیار ہو جائے گا ،لیکن اس کی حامل ہر ریاست کے شانوں پر ایک بھاری ذمہ داری عائد ہوتی ہے ۔ اصلی سوال یہ ہے کہ کیا ایسے بم کے مالک ممالک کو ایک دوسرے کے ساتھ اس کی تیاری کے معاملے میں دوڑ لگانی چاہیے یا پھر انھیں ، اور بعد ازاں ایسا بم تیار کرنے والے دوسرے ممالک کو کوئی ایسا حل تلاش کرنا چاہیے جس کے ذریعے اس کی تیاری اور استعمال کا سدِ باب کیا جا سکے؟ ۔ اس وقت یہ کہنا مشکل ہے کہ کس قسم کا معاہدہ زیر عمل آئے گا مگر ایک بات صاف ہے ۔جوہری توانائی کے استعمال کی اجازت صرف پُر امن مقاصد کے لیے دی جانی چاہیے ۔
مولوٹوف نے متفق ہوتے ہوئے مزید اضافہ کیا ’’ اور امریکی ایٹم بم پر ساری بھاگ دوڑ ہمیں بتائے بغیر کرتے رہے ہیں ۔‘‘
اسٹالین نے مختصراََ کہا ’’روز ویلیٹ نے یقیناََ ہمیں اس معاملے میں شامل کرنے کی کوئی ضرورت محسوس نہیں کی۔وہ یالٹا میں یہ کام کر سکتا تھا ۔ وہ مجھے صرف اتنا بتا سکتا تھا کہ ایٹم بم تجرباتی مراحل سے گزر رہا ہے ۔ آخر ہم اتحادی تھے ۔‘‘
جھنجھلاہٹ طاری ہونے کے باوجود اسٹالین کا انداز واضح طور پر پُرسکون تھا ۔اس نے بات جاری رکھتے ہوئے کہا ’’ یقیناََ واشنگٹن اور لندن کو امید ہے کہ ہم کچھ عرصے تک اپنا ایٹم بم تیار نہیں کر پائیں گے اور اس دوران ، امریکا کی بلکہ درحقیقت امریکااور برطانیہ کی اجارہ داری کو استعمال کرتے ہوئے وہ یورپ اور دیگر مسائل کے متعلق اپنے منصوبے ہم پر ٹھونسنا چاہتے ہیں ۔ ایسا نہیں ہو گا ۔‘‘
گرومیکو مزیدلکھتا ہے کہ ’’اسٹالین نے یقیناََ اس مسئلے کے تیکنیکی یا سائنسی پہلوؤں پر اظہارِ خیال کرنے کی کوشش نہیں کی ۔لیکن یہ ایک معروف حقیقت ہے کہ پاٹسڈیم میں قیام کے دوران اس نے اس معاملے میں ماہرین کو ہدایات دینے کے لیے کئی مرتبہ ماسکو رابطے کیے ۔
بعد ازاں جب میں نے اسٹالین کی باتوں کا تجزیہ کیا تو یہ ناگزیر نتیجہ سامنے آیا کہ اگر چہ بظاہر اس کا انداز ہلکا پھلکا تھا، مگر اس کے الفاظ کو آئندہ کئی سالوں تک روس کی جوہری پالیسی کی ریڑھ کی ہڈی سمجھا جانا چاہیے ۔‘‘ (14)
گرومیکو کی کتاب کے مطالعے سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ اسٹالین کبھی جرمنی کی تقسیم کے حق میں نہ تھا ۔یہ امریکا اور برطانیہ ہی تھے جنھوں نے سوویت یونین کی طرف سے نازی ازم سے پاک متحدہ، غیر مسلح اور جمہوری جرمنی کی تجاویز رد کیں جس کے کئی درمیانی مراحل کے بعد جرمنی دو خودمختار ریاستوں میں تقسیم ہوا ۔اور بعد میں انھوں نے مغربی جرمنی کو نیٹو میں شامل کر کے پاٹسڈیم میں طے ہونے والے ضوابط کو توڑنے کا ارتکاب کیا ۔اسی طرح یہ اسٹالین ہی تھا جس کی بدولت امریکا اور برطانیہ پولینڈ کی مغربی سرحد کو تسلیم کرنے پر مجبور
ہوئے اور یوں پولش عوام کی امنگوں کے مطابق نہ صرف اس کی مغربی سرحد کا تعین ہوا بلکہ تاریخ میں پہلی بار پولینڈ کی سرحدوں کا مسئلہ انصاف کے ساتھ حل ہوا۔ دوسری عالمگیر جنگ کے بعدامریکا اور برطانیہ نے نازی جرمنی کی طرف سے اس جنگ میں سوویت یونین کے کیے جانے والے نقصانات کی تلافی نہیں ہونے دی۔اس پر اسٹالین نے کہا تھا کہ ’’امریکی اور برطانوی ہمارا گلا گھونٹنا چاہتے ہیں ۔مگر فکر مت کرو ۔ ہم خانہ جنگی سے نکل آئے تھے ،ہم یہاں سے بھی نکل جائیں گے ۔‘‘ (15)کامریڈ اسٹالین نے جو کچھ کہا وہ کر گزرا ۔اور پھر دنیا نے دیکھاکہ کس طرح دوسری عالمگیر جنگ کے بعد اسٹالین کی قیادت میں سوویت یونین نے راکھ کی ڈھیر سے از سر نو بحالی کا آغاز کیا اور دنیا بھر کے محنت کشوں اور مظلوموں کی ایک عظیم قوت بن کر ابھرا ۔
حوالہ جات
-reshenie!?utm_campaign=transit&utm_source=main&utm_medium=page_0&domain=mirtesen.ru&paid=1&pad=1
,by Faith Gates Jun 26th, 201
(2) New Poll: Russians Choose Joseph Stalin as Greatest Historical Figure
(3) یاداشتیں، آندرے گرومیکو ، ترجمہ ،جہانگیر بدر ، تخلیقات، لاہور،2007،ص:123,124
(4)ایضاََ، ص:118,119
(5) ایضاََ،ص:119
(6) ایضاََ، ص؛104
(7) ایضاََ، ص:119,120
(8)ایضاََ، ص:120
(9)ایضاََ،ص:120,121
(11)ایضاََ، ص:21
(11) ایضاََ،
(12) ایضاََ،ص:127,128
(13)ایضاََ، ص:128
(14) ایضاََ،ص:128,129,130
(15) ایضاََ، ص:131