دنیا کی پہلی داستان | ابن حنیف | Dunya Ki Phli Dastan | Ibn Hanif
دنیا کی پہلی داستان | ابن حنیف | Dunya Ki Phli Dastan | Ibn Hanif
موجودہ ملک عراق کی پرانی لیکن شاندار تاریخ ہزار ہا برسوں کی وسیع اور عریض چادر پر پھیلی پڑی ہے، اور اس قابل فخر تاریخ کا تانا بانا مختلف اقوام نے بنا تھا۔ ماضی کی ان زندہ جاوید عراقی قوموں میں سو میری اکاری، بابلی، کلدانی لہ کسدی تھے، اشوری اور متانی وغیرہ شامل ہیں، ان کا لٹریچر ہم تک پہنچ چکا ہے اور اس عظیم الشان ادبی ورثے میں علم وادب کی تقریبا ہر صنف پائی جا رہی ہے۔ عراق کے اس ترکے میں دو منظوم داستانیں بہت ہی نمایاں ہیں۔ ایک تو ہے ( زیر نظر ) جلجامش کی داستان اور دوسری ہے انو ما الش" (انو ما الش کے معنی ہیں جب کہیں اوپن موخر الذکر حق اور باطل کی فیصلہ کن معرکہ آرائی اور تخلیق کائنات سے متعلق ہے اور پہلی یہ ہے۔ جو آج آپ پڑھنے جا رہے ہیں۔
دونوں میں جلجامش کی داستان زیادہ طویل بھی ہے اور اہم بھی آئیے پہلے یہ دیکھ لیجئے کہ دنیا کی سب سے قدیم یہ داستان ملی کیسے؟ اور اس کے کتنے نسخے یا کتبے اب تک پائے جاچکے ہیں۔
(جو ہمارے علم میں ہیں) انیسویں صدی کے اوائل کا ذکر ہے کہ ایسٹ انڈیا کمپنی کے ریزیڈنٹ مسٹر رچ (Rich) مقیم بغداد کو فرات کے کنارے ٹیلوں سے کچھ گلی ظروف کے ٹکڑے اور کتبے ملے۔ مگر ان کی اہمیت کوئی خاص نہ تھی۔ موصل میں فرانس کے قونصل مسٹر بوٹا (Botta) تھے ۔ اس نام آور فرانسیسی نے نینوا ( موجودہ کو جک) کے تھوڑے سے کھنڈرات برآمد کر لئے۔ لیکن کسی مقامی باشندے کی نشاندہی پر موصوف نے نینوا کی کھدائی ادھوری چھوڑ کے 1845 ء میں ٹرس آباد سے ایک اشوری با دشاه سارگن دوم (722) ق م) کامل نکال لیا 1839 ء کی بات ہے کہ انگریز نوجوان آسٹن ہنری لایارڈ (Austin Henry Layard) لنکا جاتے ہوئے عراق رک گیا۔ لا یارڈ کا یہ قیام آثار قدیمہ کی تاریخ میں سنگ میل بن کر رہ گیا ہے۔ جن دنوں مسٹر بوٹا عراق کے پرانے ٹیلوں سے ماضی کے اوراق تلاش کر رہے تھے۔ انہی دنوں لا یارڈ بھی سرگرم کار ہو گیا، اور اس نے قدیم شہر نینوا اور نمرود کھو د نکالے ۔ 1849ء میں لایارڈ موصل آگیا، اور پھر نینوا سے اس نے اشوریہ کے بادشاہ اشور بنی پال (669) تا 626 ق م) کی مشہور زمانہ لائبریری برآمد کر لی۔ اس لائبریری میں ان گنت "کتا ہیں تے اور نوشتے تھے ۔ اتنے کہ صرف برٹش میوزیم ہی میں ان میں سے آج پچیس ہزار سے بھی زیادہ تختیاں اور کتابیں موجود ہیں۔ انہی میں جلجامش کی داستان اور انو مالش بھی ہیں۔ بوٹا اور لا یارڈ کے بعد عراق میں آثار قدیمہ کی کھدائی کے سلسلے میں سر ہنری رالنسن، مسٹر لوفٹس (Loftus)، جارج سمتھ (George Smith)، مسٹر ہر مز در ستام مسٹر ایل ڈبلیو گنگ ،)Dr. Budge( ڈاکٹرائی جج ، )Hormuzd Rassam( (L.W.King)، مسٹر آر تھا پیسن (Thompson ) اور آجکل کے نامور ماہر اثریات سر لیونارڈو ولی (Leonard Woolley) تھے جن کا انقال حال ہی میں ہوا ہے۔ لیونارڈو ولی نے ہی طوفان نوح کی اثری شہادت برآمد کی تھی۔ مشہور انگریز ہنری رالنسن (Henry Rawlinson) نے بغداد کی ریذیڈنسی میں بیٹھ کر ان تختیوں کو پڑھنا شروع کر دیا۔ وہ وہاں اس وقت پولیٹیکل ایجنٹ تھا۔ بغداد آنے سے قبل رالنسن 1850ء میں بے ستون کا کتبہ پڑھ کر عراق کے قدیم مسیحی رسم خط شے سے آگاہ ہو چکا تھا۔
1866ء میں جارج سمتھ رانسن کے نائب کی حیثیت سے اس کا شریک کار ہو گیا۔ اس اثناء میں (1853ء) لایارڈ کے جانشین رسام نے نینوا سے جلجامش کی داستان کے کچھ حصے پالئے ۔ مگر اس داستان کی اہمیت کہیں میں سال بعد جا کر معلوم ہو سکی ۔ 1872ء میں جارج سمتھ نے اعلان کیا کہ میں نے عراقیوں کی طوفان (نوح) سے متعلقہ کہانی دریافت کر لی ہے۔ طوفان کی یہ کہانی اصل میں داستان جلجامش کا ہی ایک باب ہے۔ جو گیارہویں سختی پر لکھی ہوئی ہے۔ مگر اس داستان کی پوری یعنی بارہ تختیاں ابھی تک نہیں ملی تھیں۔ چنانچہ سمجھ نینوا آیا اور وہاں سے ہاتی گیارہ تختیاں بھی ڈھونڈ نکالیں کہ سمتھ نے اس مہم میں بڑی سختیاں جھیلیں اور 1876 میں وہ بیماری اور فاقوں سے حلب کے مقام پر فوت ہو گیا۔
داستان کی متعد د نقول
یہ آغاز تھا اور ان بارہ تختیوں پر مشتمل مسلسل کتاب کے بعد اس داستان کی مختلف نقول ملتی رہیں۔ لیکن ان میں نسبتا سب سے مکمل اور طویل بارہ ابواب پر مشتمل یہی کتاب ہے جو اشور بنی پال کی لائبریری سے پائی گئی۔ یہ کتاب بارہ تختیوں پر لکھی ہوئی ہے۔ ہر تختی پر چھ چھ کالم تھے، اور تین تین سو سطور ۔ اس طرح کل سطریں قریباً 3600 تھیں۔ ویسے بعض اندازے یہ بھی ہیں کہ سطور تین ہزار یا 3450 تھیں۔ لیکن اب یہ تختیاں یا ابواب اتنے مسخ ہو چکے ہیں کہ صرف 1500 کے قریب سطریں باقی رہ گئی ہیں۔ کتاب ہذا میں شروع کے واقعات سے لے کر جلجامش کی اُت نا پشتم سے ملاقات اور واپسی تک کے حالات ہیں ۔ بارہ تختوں پر واقعات کی تفصیل اس طرح ہے,,.
دنیا کی پہلی داستان
مصنف | ابن حنیف
صفحات | 152